
یمن میں سعودی عرب اور اتحادی افواج کی مداخلت کو 2000 دن مکمل ہو گئے لیکن اس عرصے میں سیاسی ابتری شدت اختیار کر گئی جبکہ دوسری طرف انسانی بحران بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
سعودی عرب نے یمن کی حکومت کو ایران نواز حوثی باغیوں سے بچانے کے لئے اپنی سربراہی میں ایک مختلف ممالک کا ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا۔
2000 دن مکمل ہونے کے بعد بھی یمن میں سیاسی استحکام تو دور کی بات انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
سعودی عرب نے 25 مارچ 2015 کو یمن میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا جب یمنی صدر منصور ہادی نے سعودی عرب سے فوجی مدد کی اپیل کی تھی۔
واضح رہے کہ یمنی صدر کو ایران نواز حوثی باغیوں نے 21 ستمبر 2014 کو دارالحکومت صنعا سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا اور شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔
ابتدا میں یمنی عوام نے سعودی عرب اور اس کی اتحادی افواج کو خیر مقدم کیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ چند ہفتوں میں حوثی باغیوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا جائے گا۔
سعودی اتحادی افواج نے جنگجووٗں کے ساتھ مل کر کارروائی کرتے ہوئے جنوبی، مغربی اور جنوب مغربی علاقے باغیوں سے واپس لے لئے تھے لیکن اس کے باوجود حوثی باغیوں نے ملک کے شمالی حصے پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔
اتحادی افواج نے جولائی 2015 میں ساحلی شہر عدن کو عارضی طور پر دارالحکومت بنا دیا لیکن اب تک جنگ اپنے عروج پر ہے اور اس کی شدت میں کسی طور کمی نہیں آ رہی ہے۔
اس وقت یمن میں جنگ اپنے زوروں پر ہے۔ خاص طور پر دارالحکومت صنعا کے مشرق میں تیل سے مالا مال شہر معرب میں جہاں دونوں اطراف کی فوجیں کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
حوثی باغی اس علاقے پر دوبارہ کنٹرول کے لئے مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ اس سال کے شروع میں یمنی حکومت کی فورسز اور اتحادی افواج کو حوثی باغیوں کے ہاتھوں بڑا نقصان پہنچا ہے۔ سعودی اتحادی افواج نے جس مقصد کے لئے یمن پر حملہ کیا تھا وہ اس ہدف سے ابھی بہت دور ہیں۔ سعودی عرب نے یمن کی قانونی اور آئینی حکومت کی بحالی اور صنعا کو دوبارہ دارالحکومت بنانا تھا لیکن سعودی اتحاد کی منزل ابھی بہت دور ہے۔