
آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف نے اعلان کیا ہے کہ آرمینیا کو دوبارہ سر نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔ آج کل آرمینیا میں سیاسی طور پر منتقم طاقتیں سر اٹھانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
لاچن ضلع کے دورے کے موقع پر انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرمینیا ایک بار پھر جنگ کی تیاری کر رہا ہے اور آذربائیجان کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کر رہا ہے لیکن ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اب معاملات ہمارے کنٹرول میں ہیں اور آرمینیا دوبارہ غلطی دہرانے کی کوشش نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ آرمینیا پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ آذربائیجان نے ہر چیز پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ آذربائیجان کسی صورت آرمینیا کو خطے میں سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے گا۔ ہم آرمینیا کی منتقم مزاج سیاسی قوتوں سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔
صدر الہام علی یوف نے کہا کہ کاراباخ کی حالیہ جنگ میں آرمینیا کی منتقم مزاج سیاسی قوتوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ آذربائیجان نے اپنے مقبوضہ علاقوں سے آرمینیا کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے۔ آذربائیجان کی بہادر فوج نے آرمینیا کی فوج کو سخت ترین شکست دی ہے۔ اب آرمینیا میں فوج نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ آج آرمینیا کی فوج کے پاس نہ اسلحہ ہے اور نہ ہی افرادی قوت۔ کاراباخ کی جنگ میں آرمینیا کے 10 ہزار سے زائد فوجی میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ آذربائیجان کی فوج میدان میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی تھی اور ہمارا ایک بھی فوجی میدان جنگ سے نہیں بھاگا۔
الہام علی یوف نے کہا کہ کاراباخ کی جنگ میں آذربائیجان کی عوام اور فوج نے عسکری کے ساتھ ساتھ اخلاقی برتری کا بھی زبردست مظاہرہ کیا اور یہی ہماری پالیسی کا منشور ہے کہ آرمینیا کو اب کسی صورت سر نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آذربائیجان نے میدان جنگ میں فتح حاصل کی اور اپنے علاقے قابضین سے بزور قوت میدان جنگ میں فتح کئے۔
الہام علی یوف نے کہا کہ آرمینیا کو بدترین شکست سے دوچار کیا اور 10 نومبر کو اسے مجبور کیا گیا کہ وہ لاچن، کلباجار اور اغدام کو آذربائیجان کے حوالے کرے۔ انہوں نے کہا کہ آرمینیا مذاکرت کی میز پر یہ اضلاع کبھی بھی آذربائیجان کو دینے کے لئے تیار نہ تھا لیکن میدان جنگ میں بدترین شکست نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ آرمینیا اپنے ہمدرد دوست ممالک کے ساتھ مل کر کاراباخ کی آزادی پر راضی تھا لیکن لاچن، کلباجار اور اغدام کے اضلاع ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔ آذربائیجان نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کیا جس کے بعد آرمینیا کے پاس پورے علاقے کا قبضہ آذربائیجان کے حوالے کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ آرمینیا کی فوج میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ چکی تھی اور ان کی فوج کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔