اگر کورونا وائرس کے خلاف کوئی محفوظ اور موثر ویکسین تیار ہو جاتی ہے تو اس کو وصول کرنے والا پہلا ملک کون سا ہو گا؟ یہ سوال اکثر ہمارے ذہنوں میں آتا ہے جس کا جواب بظاہر بہت سادہ ہے۔ جس ملک میں یہ تشکیل پائے شاید اس ملک کے باشندے اس سے سیر حاصل کرنے والے پہلے خوش نصیب ہوں۔
اس وقت برطانیہ ، روس ، چین اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں درجنوں مختلف ویکسینز جانچ کے مختلف مراحل میں ہیں ، اس ہفتے امریکی وبائی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فوکی نے کہا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ کورونا وائرس کی ویکسین اس سال کے آخر تک یا 2021 کے آغاز میں تیار ہو جائے گی۔
متعدد امیر ممالک پہلے ہی ان تجرباتی ویکسینز کی لاکھوں خوارکیں آڈر کر چکے ہیں۔
مثال کے طور پر ، برطانیہ اور امریکہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ اور آسٹرا زینیکا کے زیر نگرانی بنائے گئی ایک ویکسین میں سرمایہ کاری کی ہے۔ برطانوئی سیاستدانوں نے کہا ہے کہ اگر یہ کامیاب رہی تو برطانوئی باشندے اس کا استعمال کریں گے۔ جبکہ توقع ہے کہ امریکہ اس موسم خزاں میں اس کو ذخیرہ کرنا شروع کردے گا اور اس نے دیگر ممکنہ ویکسینز میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔
ویکسین الائنس GAVI سمیت دیگر گروپ غریب ممالک کے لئے خوراک خریدنے کے لئے کام کر رہے ہیں ، اور آسٹرا زینیکا نے 1 بلین خوراک کی تیاری کے لیے ہندوستان کے سیرم انسٹی ٹیوٹ کو اپنی ویکسین کا لائسنس دینے پر اتفاق کیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کوویڈ 19 ویکسینز کی اخلاقی تقسیم کے لئے قوائد و ضوابط تیار کررہی ہے۔
کسی ملک میں ویکسین کی تقسیم کس طرح ہوتی ہے اس کا انحصار ملک پر ہی کرتا ہے۔ گذشتہ ہفتے ، امریکی عہدیداروں نے کہا کہ وہ اس کے لئے ٹائریڈ سسٹم تیار کر رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت اہم کارکنوں اور کورونا وائرس کے شدید خطرے سے دوچار گروپس کو ترجیح دی جائے گی۔