متحدہ عرب امارات نے غزہ اور مشرقی یروشلم میں یہودیوں کی غیر قانونی بستیوں میں تجارتی مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یو اے ای کے اس فیصلے پر فلسطینی عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے ترجمان سمیع ابو زُہری نے کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یو اے ای کی سرمایہ کاری پر سخت تحفظات ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں نے اسرائیلی تاجروں کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے قریب مشترکہ کاروبار شروع کرنے کے لئے بات چیت شروع کر دی ہے۔
سمیع ابو زُہری نے کہا کہ یو اے ای کا فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں تجارتی معاہدے اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوستی سے کہیں زیادہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان مشترکہ تجارتی معاہدوں سے دراصل یو اے ای قابض اسرائیل کی غیر قانونی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یو اے ای فلسطین کی آزادی کے موقف سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور صرف اپنے تجارتی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے۔
فلسطینی تجزیہ کار سری سیمعور نے کہا کہ یو اے ای نے خطے میں اسرائیل نواز طاقتوں کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی حکمت علمی تیار کی ہے۔ یو اے ای اب ہر اس جماعت اور طبقے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے جو اسرائیل مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یو اے ای کے وزیر خارجہ انور غرقاش نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی اور ایران کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی نہیں ہیں۔ دونوں ملک اسرائیل مخالف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ مشرقی یروشلم کو یہودی شہر بنا دیا جائے اور اس کے لئے وہ یو اے ای کے ذریعے یہاں تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھا رہا ہے۔ سمیع ابو زُہری نے کہا کہ ان تمام کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دباوٗ بھی بہت زیادہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بیشتر ممالک کی امداد بند کر دی لیکن اسرائیل کی امداد جاری ہے بلکہ عرب ممالک کے فنڈز بھی اسرائیل کو دیئے جا رہے ہیں۔