اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم ہونے کے بعد مسجد اقصیٰ کے کنٹرول کے لئے متحارب گروپوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی ہے۔
اگست میں امریکہ، یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا جو معاہدہ طے ہوا تھا اس میں اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ باہر سے جو پُرامن مسلمان آئیں گے انہیں مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم کے دیگر مقدس مقامات کا بھی وہ دورہ کر سکیں گے۔ یہ بیان دراصل اسرائیل کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس میں وہ یو اے ای اور بحرین سے آنے والے سیاحوں کو مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت دے گا اور دوسری طرف فلسطینی مسلمانوں کو یہ کہہ کر روکا جا رہا ہے کہ وہ چونکہ پُرامن نہیں ہیں لہذا انہیں مسجد اقصیٰ سے دور رکھا جا رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات غیر قانونی یہودی آباد کاروں کے ساتھ مل کر مسجد اقصیٰ کا کنٹرول حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ابھی فلسطین اور اردن کی سپریم مسلم کونسل ایک وقف بورڈ کی صورت میں مسجد اقصٰی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
اس سال 18 اکتوبر کو یو اے ای کے ایک وفد نے اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی حفاظت میں مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا تھا جس پر فلسطینی عوام اور حکومت نے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیحہ نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے لئے وقف بورڈ کی اجازت ضروری ہے لیکن یو اے ای وفد غیر قانونی طور پر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے حصار میں دورہ کرنے آیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ مسلمانوں کا ایک وفد اسرائیلی گیٹ سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے۔
یروشلم معاملات کے سابق فلسطینی وزیر خالد ابو عرفہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات سے اردن اور فلسطین میں تحفظات اور خوف کی فضا ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل یو اے ای کو مسجد اقصیٰ کے معاملات میں ایک نیا کردار دینا چاہتا ہے۔
اس بیان کے فوری بعد اسرائیل نے خالد ابو عرفہ کو گرفتار کر کے آفر جیل میں قید کر دیا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو جائز قرار دینے کے لئے متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ اس معاہدے سے عام مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ تک رسائی کی اجازت ہو گی۔
فلسطینی تجزیہ کار ابو حمزہ کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے یو اے ای مقامی اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی سے دنیا کی نظریں ہٹانا چاہتا ہے۔
اس وقت یورپ میں اسرائیل کی نئی یہودی بستیوں کی تعمیر پر بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔ اسرائیل یو اے ای کو سامنے رکھ کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ عرب مسلمان ممالک ان غیر قانونی یہودی بستیوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو ان بستیوں کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔