
15 جولائی 2016 کا دن ترکیہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور اس کے اثرات سیاسی و معاشرتی تناظر میں ہمیشہ نفوز کرتے رہیں گے ۔ بیرونی عناصر کے ایما اور اندرونی ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں ، جمہور سے اقتدار کو چھیننے کی کوشش کو جس طرح سے جمہور نے خود اپنے زور بازو سے کیفر کردار تک پہنچایا ہے ایک قابل تحسین امر ہے ۔
ہم نے ترکیہ کو اس دن کے بعد کے اثرات میں پھلتے پھولتے دیکھا ہے ۔ ہمارے آنے تک یہاں پہ کئی اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ جمہور کے حق اقتدار پہ شب خون کیسے مارا گیا اس پہ کئی جگہ لکھا جائے گا ۔ مگر ہم بس اپنے احساسات پہ اکتفا کریں گے ۔
ہمارے ایک ترک دوست جو کاروبارِ سیاحت سے منسلک ہیں ان دنوں اپنے ساتھ پاکستانی سیاحوں کے وفد کے ساتھ موجود تھے ۔ جیسے ہی خبر پھیلی کہ ٹینک استنبول کی شاہراہوں پہ نکل آئے ہیں ، انہوں نے اپنے ساتھ آئے سیاحوں کو ایک اہم شاہراہ سے دور ہونے کا کہا ، لیکن ترک عوام کے ساتھ پاکستانی سیاح بھی ڈٹے رہے اور اسی دوران ایک ہیلی کاپٹر سے بھاری فائرنگ کی گئی جس کی زد میں آ کر کئی مقامی ترک زخمی ہو گئے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے تمام پاکستانی سیاح محفوظ رہے ۔
اسی طرح ہمارے عمر فاروق بھائی جو عرصہ دراز سے ترکیہ میں مقیم ہیں اور ہمارے ساتھ الخدمت ترکیہ میں بھی موجود ہیں ، نے اس رات تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور تمام رات استنول میں ترک عوام اور بین الاقوامی طلبا کے ساتھ سڑکوں پہ گزاری ۔
سرگودھا بھلوال سے تعلق رکھنے والے طالب علم معاذ احمد گجر بھائی کے ساتھ یادگار شہدا پہ ریکارڈنگ کے دوران ہماری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو اس رات اپنی ایک سالہ بچی کو گھر پہ چھوڑ کر ٹینکوں کے سامنے کھڑی ہو گئیں تھیں ۔ معاذ بھائی کے استفسار پہ کہنے لگیں کہ اُس وقت مجھے نہ صرف اپنی بچی بلکہ تمام ترک بچوں کے مستقبل کی فکر تھی جو مجھے گھر بیٹھنے نہیں دے رہی تھی ۔ اسی طرح گزشتہ دنوں ایک ترک خاندان کے ہاں عیشائیے کے دوران بات چلی تو پتہ چلا کہ اس دن یہ سارا خاندان بچوں سمیت اسکدار میں ترک صدر کی رہائش گاہ کے سامنے موجود تھا ۔ اور ان سب کا عزم یہ تھا کہ بھلے کچھ بھی ہو ترک فوج کے باغی گروہ کو رجب طیب ایردوان کے گھر کے قریب بھی پہنچنے نہیں دیا جائے گا ۔
اس تاریخ سے جڑے ہوئے ایسے کئی واقعات سننے کو ملے ہیں اور اس سے وابستہچیزوں کو دیکھنے کاموقع ملا ۔ اور ان لوگوں سے ملنے کا موقع بھی ملا جنہوں نے اس سب کو اپنے ارد گرد وقع پزیر ہوتے دیکھا ۔ ان سب کی آنکھوں میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی اپنے ملک سے محبت اور رجب طیب ایردوان کی قیادت پہ اعتماد ، ترک قوم یقین رکھتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے اور اسی لیے وہ مکمل یقین کے ساتھ اپنے رائج نظام کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بہت ہی اچھی مثالیں قائم کر رہے ہیں ۔ جو کہ آئندہ کئی صدیوں تک نئی نسل کو حریت اور آزادی کا سبق دیتی رہیں گی ۔