turky-urdu-logo

سالوں پر محیط جنگوں سے تباہ حال افغانستان میں مہنگائی کی شرح -1 فیصد کیوں؟

(رپورٹ:شبیر احمد)

اس وقت  دنیائے عالم کی حیرت کی انتہا نہ  رہی جب اگست 2021  میں  اچانک طالبان کے کابل پر قبضے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ طالبان یکے بعد دیگرے افغانستان کے تمام بڑے شہروں پر قابض ہوتے جا رہے تھے۔ افغانستان پر طالبان کے  مکمل کنٹرول کی یقین دہانی کا کام وائرل ہونے والی اس ویڈیو نے کیا  جس میں وہ سورۃ النصر کی تلاوت کے ساتھ اپنی فتح کا اعلان  کر رہے تھے۔ دوسری جانب امریکی اور اتحادی فوجیوں کے  انخلاء کا عمل بھی تیزی سے جاری تھا۔امریکی اور سابق افغان حکومت کے عہدیداران  افراتفری کے عالم میں ملک چھوڑ کر جا رہے تھے۔

یہی وہ دن تھے جب افغانستان   میں مصنوعی طور پر  خوف و ہراس پھیلایا گیا ۔ ہزاروں کی تعداد  میں افغانیوں نے کابل ایئر پورٹ کا رخ  کیاتاکہ کسی صورت ملک سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اسی کشمکش میں وہ افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا جس میں زندہ لوگ کابل ایئر پورٹ سے پرواز  بھرنے والے جہاز سے گرتے ہوئے دکھائی دیئے۔

اس صورتحال نے جنگوں سے تباہ افغانستان کو  معاشی لحاظ سے بہت متاثر کیا۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑےشہروں میں کاروباری مراکز وقتی طور پر بند ہوئے۔ دوسری طرف امریکہ نے بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر کی مد میں پڑے افغانستان کے 7 ارب ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کردیے۔ تاہم، بعد ازاں ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے امریکی  صدر جو بائیڈن  نے یہ اثاثے بحال کرتے ہوئے اس کا آدھا حصہ نائن الیون کے متاثرین کے لیے مختص کیا جبکہ باقی رقم  نجی سماجی اداروں کے توسط سے افغان عوام کی فلاح و بہبود پر لگانے کا فیصلہ کیا۔

معاشی ماہرین نے طالبان حکومت کے آغاز میں انہی دو اقدامات کو افغان معیشت کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔تاہم رواں سال جولائی کی چھٹی تاریخ کو ورلڈ آف اسٹیٹسٹکس نامی ادارے نے دنیا بھر  میں مہنگائی کا پورا انڈیکس جاری کردیا جس کے مطابق اس وقت پوری دنیا  میں سب سے زیادہ مہنگائی وینزویلا میں ہے۔ انہی شماریات کے مطابق  افغانستان میں مہنگائی کی شرح منفی ایک فیصد ریکارڈ ہوئی ہے۔

معاشی مشکلات سے دو چار افغانستان میں مہنگائی کی شرح کا منفی ہونا کافی حیران کن ہے۔ ترکیہ اردو  نے اس حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر انور شاہ سے گفتگو کی  ،جو جامعہ قائداعظم میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

ڈاکٹر انور شاہ بتاتے ہیں کہ تھیوری کے مطابق مہنگائی کی شرح کا منفی میں جانا ممکن ہے۔مہنگائی  پرقابو پانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جس قدر سامان اور سروسز تیار کیے جاتے ہیں اتنی ہی مقدار میں پیسے بھی وجود میں آئیں۔

ان کا کہنا ہے  کہ ‘جب یہ دونوں بیک وقت ایک ہی مقدار میں پیدا ہو رہی ہوں تو مہنگائی یا افراط زر میں اضافہ نہیں ہوتا۔ افغانستان میں ممکن ہے کہ پیسہ پیدا کرنے کے عمل میں بہتری آئی ہو اور وہ سامان اور سروسز کی پیداوار کے ساتھ ساتھ مساوی طور پر آگے  بڑھ رہا ہو’۔

انہوں نے کہا کہ’ تھیوری میں اس کو ہم کلاسیکی اسکول آف تھاٹ کہتے ہیں۔ اس اسکول آف تھاٹ کے نزدیک معاشی بہتری اور افراط زر میں کمی کے لیےپیسہ بطور تبادلے کا ذریعہ استعمال ہوتا ہے۔ اگر آپ خود پیسہ استعمال نہیں کرتے تو دوسروں کو مہیا کردیتے ہیں’۔

معاشی ماہرین  اور افغان امور کے ماہر صحافی افغانستان میں مہنگائی کی شرح میں کمی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ تاہم، وہ سمجھتے ہیں کہ اسے ملک کی مجموعی معاشی ترقی نہیں قرار دیا جا سکتا۔

جامعہ باچا خان کے شعبہ اقتصادیات  کے سربراہ ماہر معاشیات محمد سہیل نے ہمیں بتایا کہ ‘افغانستان میں موجودہ مہنگائی میں کمی کا تعلق اشیائے خورد  و نوش کے ساتھ ہے، جبکہ دیگر اشیاء کی قیمتیں رواں سال مئی /جون کے مہینوں میں 1.8 فیصد بڑھی ہیں۔پاکستان یا بھارت کی طرح افغان معیشت دنیا کے ساتھ مربوط نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں صرف اشیائے خورد و نوش سستی ہوئی ہیں’۔

اشیائے خورد و نوش میں مہنگائی کی شرح کم ہونے کی وجوہات کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ’ اس کی ایک وجہ افغانستان کا روس اور یوکرین کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنا ہے۔ روس اور یوکرین کی جانب سے بہت کم قیمتوں میں گندم اور دیگر  اشیاء افغانستان کو فراہم ہوجاتی ہیں۔پاکستان سے افغانستان کو 4 سے 5 ہزار تک من گندم ملتی تھی جبکہ روس سے وہ اسے 2 سے 3 ہزار میں حاصل کرلیتے ہیں’۔

محمد سہیل کے مطابق دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں اس کے اثر ات ظاہر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان اس سے اپنی آمدنی حاصل کرتی ہے۔ دوسری جانب افغانستان قریبی ممالک سے سستا تیل درآمد کرکے اسےکم قیمت پر فروخت کرتا ہے۔ تیل کی کم قیمتوں کے سبب مہنگائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

انہوں نے مہنگائی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ افغانستان کی موجودہ معیشت غیر متحرک ہے اور ترقی نہیں کر رہی۔ معاشی ترقی اور نمو کے لیے 4 سے 5 فیصد مہنگائی ضروری ہے۔ افغانستان میں نئے کارخانے اور مصنوعات پیدانہیں ہو رہیں۔ ترقی کی رفتار رک  جانے کے سبب وہاں مہنگائی معکوس سمت میں بڑھ رہی ہے’۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی محمود جان بابر اس کو طالبان حکومت کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘ اگرچہ افغانستان میں غربت آج بھی کم نہیں ہوئی، تاہم مہنگائی کا اس قدر کم ہونا موجودہ حکومت کے لئے کسی کارنامے سے کم نہیں۔ موجودہ حکومت کے پاس مستقل ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس سب کے باوجود اس کامیابی پر انہیں  سراہا جانا چاہیے۔’

محمود جان بابر نے وجوہات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’عالمی طور پر اس وقت پالیسی شفٹ کے نتیجے میں افغانستان روس اور چین کے لیےتوجہ کا مرکز ہے۔ خطے میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے وہ سستے تیل یا اشیاء کی مد میں افغانستان کی مدد کر رہے ہیں۔اس اقدام نے افغان معیشت کو کافی سہارا دیا’۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘ موجودہ افغانستان میں قانون کی حکمرانی ہے۔ حکومت اپنے عہدیداروں کا احتساب کرنے سے نہیں کتراتی۔ جہاں قانون بالاتر ہوجائے وہاں کوئی اپنی من مانی سے قیمتوں کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا اور مارکیٹ کنٹرول میں رہتی ہے۔

محمود جان بابر سمجھتے ہیں کہ مارکیٹ کے کنٹرول میں رہنے کی ایک وجہ حکمرانوں اور عوام کا ایک جیسا طرز زندگی بھی ہے۔ حکمرانوں کے کھانے پینے اور چلنے پھرنے میں اگر کوئی تفریق موجود نہ ہو تو اس کا اثر مارکیٹ پر مثبت انداز میں پڑتا ہے۔

ڈاکٹر انور شاہ نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘زرمبادلہ کے ذخائر کا تعلق براہ راست مہنگائی سے نہیں ہوتا۔ امریکہ کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر منجمدہوجانے کے بعد افغانستان خود کفالت کی جانب بڑھا ہے۔ اب وہ خود چیزیں بناکر خود ہی اسے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے مقامی اشیاء مہنگی نہیں ہو پاتیں’۔

ماہر معاشیات محمد سہیل کے خیال میں ڈالر کی اسمگلنگ نے بھی افغان معیشت کو کافی سہارا دیا ہے۔

‘پرانے ڈالرز کی موجود گی کی وجہ سے افغان ایکسچینج  ریٹ ہم سے زیادہ مضبوط ہے۔اس کے علاوہ اشیائے خورد و نوش اور ڈالرز کی اسمگلنگ بھی پاکستان سے وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہے۔ ان چیزوں نے افغانستان کی کرنسی کو خاصا مضبوط کیا ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور وہ منفی کی جانب بڑھ جاتی ہے’

ڈالرز اسمگلنگ سے متعلق سوال پر محمود جان بابر کے ان سے کچھ مختلف خیالات ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ’ ڈالر یقینی طور پر ایک عنصر کے طور پر موجود ہوسکتا ہے، لیکن یہ مقامی کرنسی کو سہارا دینے کا کام کرتا ہے۔ اس کے برعکس مہنگائی پر قابو پانے کے  لیے ضروری ہے کہ مقامی طور پر مارکیٹ میں اشیاء موجود ہوں اور اس کے اوپر قانون کی حکمرانی ہو’۔

امارت اسلامیہ افغانستان نے اس رپورٹ پر اپنے ردعمل میں اسےخوش آئند اور بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

نائب وزیر برائے اقتصادیات عبدالطیف نظاری کے مطابق برآمدات میں اضافہ، ملکی مصنوعات کی حمایت اور ڈالر کی اسمگلنگ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ افغان کرنسی کا استحکام ملک میں مہنگائی میں کمی کی اہم وجوہات ہیں۔

‘جن وجوہات کی وجہ سے ہم مہنگائی کی شرح کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ان میں برآمدات میں اضافہ اور خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں کمی  بھی ہے’

Read Previous

ترکیہ 15 جولائی کے سائے میں

Read Next

قوم اپنے جوانوں کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولے گی،صدر ایردوان

Leave a Reply