turky-urdu-logo

موجودہ عالمی نظام دنیا کے بحرانوں کو حل کرنے میں ناکام ہے، صدر ایردوان

صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ موجودہ عالمی نظام دنیا میں پائے جانے والے بحرانوں پر قابو پانے میں ناکام ہو گیا ہے۔ اب ضروری ہے کہ اس نظام کو تبدیل کیا جائے۔

وہ انقرہ میں ترکی کے سفیروں کے سالانہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ موجودہ عالمی نظام غریبوں کا استحصال کر رہا ہے۔ امیر ملک غریب ممالک کو حقوق نہیں دے رہے ہیں۔ یہ استحصالی نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظام کو تبدیل کیا جائے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں”دنیا پانچ ممالک سے کہیں زیادہ بڑی ہے” صدر ایردوان نے کہا تھا کہ طاقت کے بجائے انصاف کی بنیاد پر ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کو سکون میسر آ سکے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی معاملات میں کثیر المرکزیت اور علاقائیت کی بنیاد پر ایک نئے نظام کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے عالمی سیاست اور معاشی میدان میں ایک نئی سمت کا تعین کیا ہے۔ اب بڑی صنعتوں کو اپنے خام مال کے لئے اپنی صنعتوں کے قریب تر مراکز کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ ماضی میں ترکی کی سابقہ حکومتیں دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے دوران پیدا ہونے والے بہترین مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں لیکن اب ترکی نے اپنی جغرافیائی اہمیت اور تاریخی اقدار سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے جہاں اب تک 12 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں وہیں دنیا میں تجارت کے نئے رجحان نے جنم لیا ہے۔

ترکی کی انسانیت کی خدمت پر مرکوز خارجہ پالیسی کا زکر کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی وبا پر اپنی آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ سکتے۔ عالمی وبا کے دوران ترکی نے دنیا کے 141 ممالک سے اپنے ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو واپس بلایا۔ اس کے علاوہ ترکی نے 67 ممالک کو 5500 شہریوں کی واپسی میں مدد فراہم کی۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لئے ترکی نے 155 ممالک اور 9 بین الاقوامی امدادی اداروں کو طبی آلات اور ضروری ساز و سامان عطیہ کیا۔

Read Previous

ترکی: پاکستانی سفارت خانے میں جناح ینگ رائٹرز ایوارڈز کی تقریب تقسیم انعامات

Read Next

ترک ڈاکٹر نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی ویکسین تیار کر لی

One Comment

Leave a Reply