صدر رجب طیب ایردوان نے تمام سیاسی جماعتوں اور عوام سے نئے آئین کی تیاری میں کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز سے صوبائی کانگریس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئے آئین کی تیاری میں معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے تاکہ ایک مکمل اور مستحکم آئین تیار کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اپنے اتحادی پیپلز الائنس کے ساتھ متفقہ آئین پر متفق ہو جاتی ہے تو پھر نئے آئین کو دستاویزی بنانا ممکن ہو جائے گا۔
انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے مثبت اور ٹھوس تجاویز دینے کو کہا تاکہ 2023 سے پہلے نیا آئین تشکیل پا سکے۔ آئین کو بنانے میں تاریخی قدم اٹھایا گیا ہے خاص طور پر اب ترکی میں صدارتی نظام حکومت قائم کر دیا گیا ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ آئین میں کئی سال سے مسلسل تبدیلیاں کی جاتی رہیں جس کے باعث آئین کی خودمختاری قائم نہ رہ سکی۔ اب ترکی کو مستقبل کے لئے ایک نئے آئین کی ضرورت ہے جو کئی سال تک ترکی کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہو۔
صدر ایردوان نے نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کی طرف سے نئے آئین کی تیاری میں حمایت اور مدد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اپنے اتحادی پیپلز الائنس کے ساتھ مل کر نیشلسٹ موومنٹ پارٹی سے تمام امور پر بات چیت کی جائے گی۔
ایم ایچ پی پارٹی کے صدر دولت باشیلی نے کہا کہ ترکی کا موجودہ آئین تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ آئین غیر معمولی حالات کی ایک پروڈکٹ بن کر رہ گیا ہے۔
استنبنول میں بوغازیجی یونیورسٹی کے نئے ریکٹر کی تعیناتی پر ہونے والے مظاہرے پر صدر ایردوان نے کہا کہ ہم ایسے لوگوں کو بالکل برداشت نہیں کر سکتے جن کا تعلق دہشت گرد گروپوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے نوجوانوں میں حقیقی قومی اور اخلاقی اقدار موجود ہیں انہیں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ استنبول میں طلبہ یونیورسٹی کے نئے ریکٹر محمد بولو کی تعیناتی پر احتجاج کر رہے ہیں اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
یہ احتجاج اس بات پر کیا جا رہا ہے جب پولیس نے دو طالب علموں کو گرفتار کیا جو یونیورسٹی گراوْنڈ میں اسلامی اقدار کے خلاف بنائی جانے والی ایک پینٹنگ کی نمائش کر رہے تھے۔
ان طالب علموں کی گرفتاری اور عدالت کی طرف سے ان کے پولیس ریمانڈ پر کچھ طالب علم گروپس احتجاج کر رہے ہیں۔
ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہرے سے گرفتار کئے گئے 80 طلبہ کا تعلق دہشت گرد گروپوں سے ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ جو طالب علم ریکٹر کے آفس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے وہ طالب علم نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں اور ترکی میں ایسے دہشت گردوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ترکی میں دوبارہ ایسا کوئی تجربہ نہیں ہونے دیں گے جو اس سے پہلے تقسیم چوک کے گیزی پارک میں ہوا۔
واضح رہے 2013 میں استنبول کے گیزی پارک میں ایک چھوٹے سے احتجاجی مظاہرے نے قومی سطح کے احتجاج کی شکل اختیار کر لی تھی جس میں عام افراد سمیت 8 پولیس آفیسرز بھی جاں بحق ہو گئے تھے۔