کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کیلئے تُرکی نے اپنی الگ حکمت عملی تیار کی جو اب تک مخٹلف ممالک کے اقدامات میں سب سے بہتر ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں تُرکی کی حکمت عملی کی تعریف کئے بِنا نہ رہ سکے۔
صدر طیب اردوان کی حکومت نے ابتدائی طور پر مختلف اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد 20 سال سے کم اور 65 سال سے زائد عمر کے افراد کے گھروں سے باہر آنے پر پابندی لگا دی تھی جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے تھے۔ برطانیہ کی لینکاسٹر یونیورسٹی کے ورولوجسٹ ڈاکٹر محمد منیر نے کہا ہے کہ تُرکی کی طرز پر محدود نقل و حرکت ایک کامیاب حکمت عملی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند افراد کا باہر جا کر کام کرنا نقصان دہ نہیں ہے تاہم بیمار اور ضعیف افراد کو گھروں میں رکھا جائے تاکہ وہ وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔
تُرکی میں کورونا وائرس کے ایسے مریضوں کی ریکوری کی شرح 80 فیصد ہے جو کسی بیماری کا شکار نہیں تھے۔ وائرس سے متاثر ہونے کے بعد قرنطینہ میں رہ کر وہ دوبارہ صحت مند زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن کا مقصد صرف یہ ہے کہ بیماری کو پھیلنے سے روکا جائے اور اسپتالوں میں مریضوں کی آمد کو محدود کیا جائے۔ ترکی نے اس حکمت کو اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ترکی میں وائرس سے متاثرہ افراد اور اموات کی شرح انتہائی کم ہے۔
یونیورسٹی آف کینٹ میں ورولوجی کے لیکچرار ڈاکٹر جیریمی روزمین کہتے ہیں کہ یومیہ بنیادوں پر اعداد و شمار جاری کرنا بھی ایک غلط اقدام ہے۔ لاک ڈاؤن ایسے ممالک میں زیادہ مؤثر رہا ہے جہاں وائرس کے ابتدائی حملے میں ہی لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا گیا اس سے کیسز کی تعداد میں کمی آئی جیسا کہ ترکی کے واقعے میں دیکھا گیا ہے۔ دوسرا لاک ڈاؤن کا فیصلہ اس وقت بہتر ہوتا ہے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے ہوں اور کیسز کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہو یا کسی ملک میں وائرس اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد دوبارہ معمول پر آ رہا ہو۔
ترکی کی طرز پر اب بہت سے ممالک اب مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں لیکن محدود لاک ڈاؤن بھی ایک کامیاب تجربہ ہے جو ترکی نے ابتدائی طور پر کیا تھا۔ محدود لاک ڈاؤن میں معاشی سرگرمیاں کسی حد تک جاری رہتی ہیں اور دوسری طرف وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مدد دیتی ہیں۔
ترکی کا شمار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جہاں کورونا وائرس کے کنفرم کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ترکی میں یومیہ 4 ہزار افراد کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں لیکن ایک اچھی اور امید افزا بات یہ ہے کہ یہاں اموات کی شرح انتہائی کم ہے۔
ٹرکش میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اب تک جو اموات ہوئی ہیں ان میں کچھ لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہو کر جاں بحق ہوئے لیکن جب ان کا ٹیسٹ کیا گیا تو وہ منفی آیا۔
ترک وزیر صحت فہریتین کوشا نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے اموات کی شرح 2 فیصد ہے اس کی وجہ ترکی میں صحت کی بہترین سہولتیں اور کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کیلئے مخصوص پروٹوکول ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک میں ابھی تک متعارف نہیں کروائے گئے۔ ترکی نے دیگر ممالک کی طرح ہر شہری کے ٹیسٹ پر زور دینے کے وائرس سے متاثرہ افراد کی ٹریسنگ پر توجہ دی۔ بہت سے مریضوں کو ابتدائی طور پر ہی آکسیجن دی گئی جس سے اموات کی شرح میں کمی آئی اور ریکوری کا تناسب بھی بہتر رہا۔
ترکی نے دوسرا اہم کام یہ کیا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو ابتدا میں ہی ملیریا کی میڈیسن ہائیڈروسائیکولو کوئین اور جاپان کی اینٹی وائرل فیویپوراور دی۔ ان ادویات کے مثبت نتائج سامنے آئے اور مریض جلد ہی صحت یاب ہو کر گھر جانے لگے۔
لیکن دوسری طرف ڈاکٹر محمد منیر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے ملیریا کی دوائی زیادہ مؤثر نہیں ہے کیونکہ اس کے زیلی نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وائرس سے صحت مند ہو کر مریض گھر جا رہے ہیں لیکن خطرہ ہے کہ ایک سال کے اندر ایسے لوگوں کو دل کے امراض کی شکایات بڑھ جاتی ہیں۔ لہذا بڑے پیمانے پر ملیریا کی میڈیسن تجویز نہیں کی جا سکتی۔
دوسری طرف استنبول یونیورسٹی کے ڈاکٹر نوری کہتے ہیں کہ ملیریا کی میڈیسن دینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مریض کا آئی سی یو میں رہنے کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے اور کئی کیسز میں مریضوں کو ملیریا کی دوائی دینے کے بعد آئی سی یو شفٹ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری اولین ترجیح لوگوں کی زندگیاں بچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی کسی طرح کی تحقیقاتی رپورٹ جاری نہیں کی جا سکتی کیونکہ اعداد و شمار محدود ہیں لیکن جیسے ہی وائرس ختم ہو گا اس پر رپورٹ ضرور جاری کی جائے گی۔
ڈاکٹر نوری کہتے ہیں کہ ترکی میں ڈاکٹروں نے ایک اور تجربہ کیا جو بہت کامیاب رہا۔ دیگر ممالک میں وائرس کے متاثرہ مریضوں کو بیڈ پر سیدھا لٹایا جا رہا ہے جس سے ان کا چہرہ اوپر کی طرف رہتا ہے لیکن ترکی میں کورونا وائرس کے مریضوں کا چہرہ نیچے کی طرف رکھا گیا اور اس مقصد کیلئے ہر مریض کے سامنے ایک پلازما لگایا گیا تاکہ اس کا سر نیچے کی طرف رہے اس سے وائرس کے جسم کے دیگر حصوں پر حملے میں کمی آئی۔
ترکی نے دوسرا اہم کام یہ کیا کہ وائرس کے ابتدا میں ہی لوگوں میں پرسنل کیئر کی اشیا جیسے گلوز، فیس ماسک اور گاؤن وغیرہ مفت تقسیم کئے۔ اس کے علاوہ ترکی نے برطانیہ، اٹلی اور اسپین سمیت 30 ممالک کو پرسنل کیئر کی اشیا مفت بھجوائیں۔