تُرک وزیر دفاع ہولوسی عکار نے سمندری حدود کے تنازعے پر یونان کے ساتھ جنگ کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے تُرک وزیر دفاع نے یونان سے تکنیکی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یونان کسی بھی طرح تُرکی کے ساتھ جنگ چاہتا ہے۔
تُرک وزیر دفاع کا ردعمل اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جب یونان کے وزیر دفاع نیکوس نے کہا تھا کہ ان کی فوج سمندری حدود کے تحفظ کیلئے ترکی کے ساتھ جنگ پر بالکل تیار ہے۔
تُرک وزیر دفاع نے کہا کہ یونان کے وزیر دفاع کی زبان پھسل گئی تھی جس پر انہوں نے جنگ کی بات کی۔
ترک وزیر دفاع کے مطابق ہمسایہ ممالک کے ساتھ سمندری اور زمینی سرحدی تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ ترک اور یونان کے درمیان سرحدی معاملات پر مذاکرات کے تین راؤنڈز ہو چکے ہیں جس میں سے دو ایتھنز اور ایک انقرہ میں ہوا۔ مذاکرات کا چوتھا دور جلد ہی انقرہ میں ہو گا۔
تاہم ترک وزیر دفاع نے کہا کہ یونان کو مذاکرات کی میز پر خود غرضی کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ترکی کی خود مختاری کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یونان لوزان معاہدے کی بات کرتا ہے۔ ترکی لوزان معاہدے کو تسلیم کرتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ لوزان معاہدے کے تحت جن 23 میں سے 16 جزیروں پر یونان کا کنٹرول ہے انہیں لوزان معاہدے کے تحت مسلح فوج سے خالی کروایا جائے۔ کیا لوزان معاہدے پر بات کرنا دھمکی ہے۔
یونان دنیا میں واحد ملک ہے جو 10 میل کی فضائی حدود کو اپنی حدود قرار دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ سمندری حدود میں بھی ترکی اور یونان کے درمیان 6 ناٹیکل میل کا تنازعہ جاری ہے۔
ہاجیا سوفیا کا کلیسا کھولنے کے ایک سوال کے جواب میں ترک وزیر دفاع نے کہا کہ یہ ترکی کا اندرونی معاملہ ہے اور یونان سمیت کوئی ملک اس معاملے پر ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یونان یا کوئی اور دوسرا ملک اینٹی ترکی اور اینٹی اسلام کے ذریعے کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔