ترکی اور عالمی برادری نے واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خشوگی قتل کیس کے سعودی عدالت کے فیصلے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے ہیں۔
سعودی عرب کی ایک عدالت نے قتل میں ملوث آٹھ مجرموں میں سے پانچ کو 20 سال اور تین مجرموں کو سات سے دس سال قید کی سزا کا حکم سنایا ہے۔ اس سے پہلے خشوگی قتل کیس میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی پھانسی کی سزا ختم کرتے ہوئے ان کی قید کی سزا بڑھا دی ہے۔
ترکی اور عالمی برادری نے کہا ہے کہ عدالت نے کس مجرم کو کتنی سزا دی اور سزا دینے کے لئے کن ثبوتوں کو شامل کیا گیا اس سے متعلق عدالتی فیصلے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
ترکی کا کہنا ہے کہ جس طرح سے سعودی عرب کی ریاض میں قائم عدالت کی کارروائی مکمل کی گئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عدالت پر حکومت کا شدید دباوٗ تھا۔
عدالت نے اپنی کارروائی میں قتل میں ملوث افراد کی معلومات پر انحصار کیا لیکن قتل کی واردات کے طریقہ کار اور ثبوتوں سے متعلق عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ جمال خشوگی کو قتل کرنے کے لئے 15 رکنی ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیا گیا تھا لیکن صرف آٹھ افراد کو سزا سنائی گئی ہے سات افراد سے متعلق عدالت نے اپنے فیصلے میں کچھ نہیں لکھا۔
امریکی ایجنسی سی آئی اے کے مطابق جمال خشوگی کو قتل کرنے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی ملوث تھے۔
عدالت نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے سابق ایڈوائزر سعود القحطانی، سابق نائب انٹلی جنس چیف احمد الاسیری اور استنبول میں سابق سعودی قونصل جنرل محمد العطیبی سے متعلق بھی کوئی فیصلہ نہیں دیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ عدالت نے پھانسی کی سزا پانے والے پانچ افراد کی سزا کو معطل کرتے ہوئے انہیں 20 سال قید کا حکم سنایا ہے جبکہ دیگر مجرموں کی سزا میں تخفیف کی گئی ہے۔
سعودی عرب کے فورنزک ایکسپرٹ صالح محمد الطوبیغی کے متعلق عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ صالح محمد نے قتل کے بعد خشوگی کی لاش کو کیمیکل میں ڈال کر اسے ضائع کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ مصطفیٰ محمد المدنی اور مہر عبدالعزیز مرطب سے متعلق بھی کچھ نہیں کہا گیا۔ یہ دونوں افراد جمال خشوگی کو قتل کرنے کے لئے آنے والی ٹیم اور سعودی اتھارٹیز کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھے۔
اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیشن کے تفتیشی ایگنس کلامرڈ نے فیصلے سعودی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کی نقل (پیروڈی آف جسٹس) ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عدالت کے اس فیصلے کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔ سعودی عرب کی عدالت کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں شفافیت ہے۔
ترکی کا ردعمل:
ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے جمال خشوگی قتل کیس کے فیصلے پر عدم اطمینان کرتے ہوئے سعودی عرب سے کہا ہے کہ ترک عدالت میں ملزمان کو پیش کیا جائے جو قتل کی واردات میں ملوث تھے۔
انہوں نے کہا کہ ترک عدالت میں پراسیکیوٹرز نے سعودی عرب کے 20 ملزمان کے خلاف چالان پیش کیا ہے۔ اب یہ سعودی عرب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔