تحریر: فاروق عادل
محمد حسان لاہور کے جواں سال صحافی ہیں جنھوں نے ” ترکی اردو” نامی ویب سائٹ جاری کر کے پاک ترک صدیوں پرانے تعلق میں ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔
ترک پاکستان میں آئیں یا پاکستانی ترکی کی سیر کریں، قدم قدم پر مشترک تہذیب و ثقافت کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن مغربی تہذیبی یلغار کے ہنگامے نے ان مشترکات کو دھندلا دیا تھا۔ حال ہی ارطغرل غازی جیسی تاریخی ڈرامہ سیریل نے دو ملکوں میں بسنے والی ایک قوم کی نئی نسل کے سامنے ان حقائق کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔ محمد حسان کی ” ترکی اردو” کاقیام ان ہی مقاصد کی آبیاری ہے جس کی اہمیت کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔
اسی” ترکی اردو” کی تقریب افتتاح اسلام آباد کلب میں ہوئی جس میں اسلام آباد کی اہم شخصیات نے کی۔ مقررین نے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی کے علاوہ سابق سیکرٹری دفاع جنرل خالد نعیم لودھی اور دیگر شامل تھے۔ شہر یار آفریدی نے اپنے مزاج کے مطابق اپنے خطاب کو گرما گرم جملوں سے سجایا اور بھارت کو خبردار کیا کہ وہ کمر ہمت کس کے کیوں کہ اب عمران کی قیادت میں ہم ثقافتی میدان میں اترنے والے ہیں۔
ان سطور کے لکھنے والے نے متوجہ کیا کہ بھارت پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ پاکستان اور کشمیر کے معاملے میں ترکی کے موقف کوئی تبدیلی کسی صورت میں نہیں لا سکتا۔ اپنی اسی ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس نے ثقافتی محاذ پر کام شروع کر دیا ہے۔ بھارت نے اب وہاں ہولی منانی شروع کر دی ہے۔ بعض یوگیوں نے آشرم کھول لیے ہیں جہاں وہ یوگا کے بہانے اشرافیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت کی اس ثقافتی یلغار کے مقابلے میں ہماری طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ توقع تھی کہ آفریدی صاحب اس معاملے پر توجہ دیں گے لیکن وہ نعرے بازی سے نکل ہی نہ پائے۔
الخدمت کے سربراہ عبدالشکور نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ واٹس ایپ اور اس جیسی دیگر ایپلیکیشنز کے استعمال کے بجائے ترک ایپ Bip استعمال کریں۔
ترک سفیر احسان مصطفیٰ یورداکول تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ترک سفیر متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے مختصر عرصے میں عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ وہ یہاں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ انھوں نے تحریک خلافت میں حصہ لینے والے معروف کردار لالہ عبدالرحمٰن پشاوری کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد پاکستانی انھیں اسی طرح لالہ مصطفیٰ کے نام سے یاد کریں گے جیسے ترک لالہ پشاوری کو یاد کرتے ہیں۔
ترک سفیر نے اپنے خطاب میں دونوں اقوام کے تاریخی رشتوں اور موجودہ اسٹریٹجک صورت حال کا احاطہ کیا اور چلتے چلتے ایک جملہ ایسا بھی کہہ دیا جس کا تعلق پاک ترک تعلقات کی تازہ صورت حال سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترک کمپنیاں پاکستان پر بوجھ نہیں ہیں۔ ان کے اس جملے کو لاہور میں ترک کمپنیوں کے خلاف کارروائی اور اثاثوں کی ضبطی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کیا پاکستان پر اب ایسا وقت آچکا ہے کہ ترک سفیر کو ایسی بات کہنی پڑے؟ آفریدی صاحب اپنی تقریر کے بعد چلے نہ جاتے تو شاید وہ بھی سمجھ پاتے کہ ان کے دور میں پاک ترک تعلقات پر کیسا مشکل وقت آ پڑا ہے کہ ترکی جیسے جان سے پیارے ملک کے سفیر کو یوں کھلے عام ہمیں متوجہ کرنا پڑا۔