turky-urdu-logo

شام میں ترک افواج کی تعیناتی، اسرائیل کی بقا کو خطرات

حال ہی میں سامنے آنے والی متعدد رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ شام کی عبوری حکومت نے حمص کے مضافات میں واقع شہر "تدمر” کا فوجی اڈہ ترکی کے حوالے کر دیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے عبوری حکومت کے اُن انتظامات کا حصہ ہے جو اسرائیل کے خلاف فوجی طاقت کے توازن کو قائم کرنے کے سلسلے میں کیے جا رہے ہیں۔

تاحال ترکی یا شامی وزارت دفاع کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔ تاہم معروف عرب آن لائن اخبار  "الاستقلال” نے شامی سیاسی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ "ترکی کی جانب سے شام کو فوجی امداد فراہم کرنے اور نئی شامی ریاست کی حفاظت کے لیے وسیع تر اسٹریٹجک اتحاد پر پیش رفت ہوئی ہے۔ ان فوجی معاہدوں کا مقصد اسـرائیل کی شام میں دھونس کو روکنا اور اس کے بار بار حملوں کو بند کرنا ہے۔

  میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کو سب سے زیادہ پریشانی اس بات سے ہے کہ شام میں ترکی کی موجودگی انقرہ کو صہیونی ریاست کی سرحدوں کے قریب لے آئی ہے۔ اس کے علاوہ ‘تل ابیب’ میں حکام ترک عہدیداروں کے ان بیانات سے پریشان ہیں جن میں دمشق اور قدس کی آزادی کو آپس میں منسلک کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ خبررساں ادارے رائٹرز  نے 4 فروری 2025 کو شام کے باخبر ذرائع  کے حوالے سے بتایا کہ شامی صدر الشرع اور ترک صدر اردوگان انقرہ میں ایک مشترکہ دفاعی معاہدے پر گفتگو کریں گے، جس میں شام کے وسط میں ترک فضائی اڈوں کا قیام اور نئے شامی فوج کی تربیت شامل ہے۔ اس معاہدے سے ترکی کو شام میں نئے فضائی اڈے بنانے، شامی فضائی حدود کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور نئے شامی فوج کی تربیت میں اہم کردار ادا کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب شام کی نئی قیادت کی جانب سے اسٹریٹجک دفاعی انتظامات کے حوالے سے کوئی بات سامنے آئی تھی۔

 24 مارچ 2025 کو اسرائیلی نیوز ویب سائٹ "والا” نے دعویٰ کیا کہ شام کی عبوری حکومت ترکی کے ساتھ حمص کے علاقے تدمر میں ایک فوجی اڈہ کی حوالگی کے حوالے سے مذاکرات کر رہی ہے۔ جس کے بدلے میں شام کے لیے معاشی، فوجی اور سیاسی امداد حاصل کی جائے گی۔ ویب سائٹ نے حمص کے مشرقی علاقے میں "ترک فوجی موجودگی” کو اسرائیل کے لیے سنجیدہ تشویش کا باعث قرار دیا تھا۔

اسرائیلی لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) ‘ساریت زہاوی’ کی سربراہی میں قائم  تحقیقی مرکز "اسرائیل آلما” نے 25 مارچ 2025 کو دعویٰ کیا کہ ترکی شام کے اندر متعدد فوجی اڈوں کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، فضائیہ کے لیے شام کے علاقے ‘تدمر’ اور دیگر ہوائی اڈوں کے استعمال سے ترکی شام میں اپنی زمینی اور فضائی سرگرمیوں کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی نے شمالی شام کے "مینگ” فوجی ہوائی اڈے پر فوجیں اور ساز و سامان منتقل کر دیا ہے۔ ترکی نے اس اڈے کی تجدید اور توسیع کی ہے، وہاں ریڈار، فضائی دفاعی نظام اور اضافی سازوسامان نصب کیے ہیں تاکہ شام کی فضائی حدود کی نگرانی اور کنٹرول کر سکے۔ اسرائیلی تحقیقی مرکز نے اسے "ترکی کی شام میں براہ راست فوجی مداخلت بڑھانے اور خطے میں طویل مدتی ارادوں کو ظاہر کرنے والا پہلا قدم” قرار دیا گیا۔

اس اسرائیلی پلیٹ فارم نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ترکی ‘تدمر’ ائیر بیس کو جرمنی میں موجود امریکی "رامشٹائن” ائیربیس کی طرح کو کثیر المقاصد فوجی اڈہ بنانا چاہتا ہے، جس کو امریکہ روس اور پورے مشرقی جرمنی کی نگرانی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ انقرہ نے بڑی طاقتوں، بشمول اقوام متحدہ، پر واضع کیا ہے کہ وہ اس اڈے کو "ترک خودمختار علاقہ” سمجھتا ہے۔ اور خبردار کیا کہ اس پر کسی (اسرائیلی) حملے کا براہ راست فوجی جواب دیا جائے گا۔

اسرائیلی تحقیقاتی مرکز کا یہ دعویٰ شام کے ‘تدمر’ کے قریب واقع "ٹی-4” پر اسرائیل کے حملے کے فوری بعد سامنے آیا تھا۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے تدمر اور وسطی شام میں "ٹی-4” فضائی اڈے پر شامی فوج کے "اسٹریٹجک” فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ وہاں شام کی سب سے خطرناک Su-24M2 لڑاکا طیاروں کا دستہ موجود تھا، جن کا بنیادی کردار دمشق کا دفاع تھا۔

دفاعی ماہرین کے مطابق، شام کی جانب سے ترکی کو ‘تدمر’ میں فوجی اڈے دینے سے اسرائیل کی تشویش دو اہم وجوہات ہیں۔

اول: یہ اڈہ شامی فضائیہ کا ستون تھا، اس اڈے پر ترک لڑاکا طیاروں کی موجودگی کی وجہ سے اسرائیلی کی شام پر  فضائی دھونس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ترک فضائیہ نے جس طرح ماضی میں روسی طیاروں کا شکار کیا تھا، ویسے ہی اسرائیلی طیاروں کو بھی نشانہ بنا سکے گی 

دوئم: ترکی اس فوجی اڈے پر طاقتور ریڈار اسٹیشن قائم کرے گا۔ جس کا دائرہ مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے آگے اسرائیل تک ہو گا۔ جس سے اسرائیلی طیاروں کی کڑی نگرانی ہو سکے گی۔ نہ صرف ترک افواج اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی نقل و حرکت سے باخبر رہیں گی۔ بلکہ وہ اسرائیلی فضائیہ کی نقل و حرکت سے خطے کے دوسرے ممالک کو بھی متنبہ کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

"آلما” کے مطابق ترک ریڈار کی موجودگی کے باعث تل ابیب اور دیگر اسرائیلی ائیر پورٹ پر خفیہ دوروں پر آنے والی شخصیات کی سرگرمیوں کی تفصیلات بھی میڈیا میں شائع ہونا شروع ہو جائیں گی۔

اس کے علاوہ ترکی کی جانب سے شامی فوج کو جدید تربیت اور روایتی ہتھیار، خاص طور پر فضائی دفاعی نظام، میزائل، اور ڈرون فراہم کیے جانے سے اسرائیل کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

23 مارچ 2025 کو اسرائیلی میڈیا نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ "تل ابیب میں ترکی کے ساتھ شام میں براہ راست تصادم کا خوف بڑھ رہا ہے۔” ذرائع کے مطابق، شامی فوج اپنے فوجی اڈوں اور میزائل صلاحیتوں کی بحالی کی کوشش کر رہی ہے، نیتن یاہو نے اپنے مشیروں سے کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے اس تاثر کو پختہ کریں کہ ترکی کے ساتھ شام میں تصادم ناگزیر ہو چکا ہے۔

24 مارچ 2025 کو اسرائیلی وزیر خارجہ ‘گیدون سار’ نے ترکی کے شام میں اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ان کا ملک دمشق یا کہیں اور انقرہ کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا۔

اسی روز اسرائیلی اخبار "یدیعوت احرونوت” اور "چینل 12” نے خبر دی کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو شام میں "ترکی کے بڑھتے اثر و رسوخ” پر سیکیورٹی حکام کا اجلاس طلب کیا ہے۔ نیتن یاہو "شام کی نئی انتظامیہ اور ترکی کے درمیان بڑھتی قربت کو تشویش سے دیکھ رہا ہے۔”

امریکی ویب سائٹ "دی میڈیا لائن” نے کہا ہے کہ "بشار اسد کے خاتمے کے بعد ترک صدر اردوگان کی شام میں پالیسیاں ترکی اور اسرائیل کو براہ راست مسلح تصادم کے قریب لا رہی ہیں۔”

عرب آن لائن اخبار "الاستقلال” نے شام کے سیاسی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ترکی اور شام کے درمیان فوجی معاہدے کی بنیادیں مکمل طور پر تیار ہو چکی ہیں، جن میں شامی ہوائی اڈوں پر ترک فوجی موجودگی شامل ہے، لیکن اس معاہدے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا جائے گا۔

 26 مارچ 2025 کو "الجزیرہ نیٹ” نے شامی وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ "ترک اور شامی فوج کے درمیان مختلف علاقوں میں مشترکہ فوجی تنصیبات کے قیام کی کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ جو شمالی، مشرقی اور وسطی شام میں قائم کی جائیں گی۔ ان میں مینگ، دیر الزور، ٹی فور اور تدمر کے ائیربیسز بھی شامل ہیں۔ ان مشترکہ فوجی تنصیبات پر  ڈرون طیاروں کی تعیناتی بھی شامل ہے، جیسا کہ ترک فوج نے لیبیا کی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ ہوائی اڈے شامی فوج کی تربیت اور ترقی کے لیے مختص ہوں گے، جو دونوں فریقوں کے درمیان معاہدے کا حصہ ہے”۔

ترک اخبار "حریت” نے انکشاف کیا کہ انقرہ شام کے ساتھ فوجی تعاون کے تحت شامی فوج کو اپنی جدید دفاعی مصنوعات فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ، ترک فوجی مشیر شام بھیجے جائیں گے تاکہ اسد خاندان کے خاتمے کے بعد نئے شامی فوج کی تنظیم نو میں مدد کی جا سکے۔

حال ہی میں سامنے آنے والی متعدد رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ شام کی عبوری حکومت نے حمص کے مضافات میں واقع شہر "تدمر” کا فوجی اڈہ ترکی کے حوالے کر دیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے عبوری حکومت کے اُن انتظامات کا حصہ ہے جو اسرائیل کے خلاف فوجی طاقت کے توازن کو قائم کرنے کے سلسلے میں کیے جا رہے ہیں۔

تاحال ترکی یا شامی وزارت دفاع کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔ تاہم معروف عرب آن لائن اخبار  "الاستقلال” نے شامی سیاسی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ "ترکی کی جانب سے شام کو فوجی امداد فراہم کرنے اور نئی شامی ریاست کی حفاظت کے لیے وسیع تر اسٹریٹجک اتحاد پر پیش رفت ہوئی ہے۔ ان فوجی معاہدوں کا مقصد اسـرائیل کی شام میں دھونس کو روکنا اور اس کے بار بار حملوں کو بند کرنا ہے۔

  میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کو سب سے زیادہ پریشانی اس بات سے ہے کہ شام میں ترکی کی موجودگی انقرہ کو صہیونی ریاست کی سرحدوں کے قریب لے آئی ہے۔ اس کے علاوہ ‘تل ابیب’ میں حکام ترک عہدیداروں کے ان بیانات سے پریشان ہیں جن میں دمشق اور قدس کی آزادی کو آپس میں منسلک کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ خبررساں ادارے رائٹرز  نے 4 فروری 2025 کو شام کے باخبر ذرائع  کے حوالے سے بتایا کہ شامی صدر الشرع اور ترک صدر اردوگان انقرہ میں ایک مشترکہ دفاعی معاہدے پر گفتگو کریں گے، جس میں شام کے وسط میں ترک فضائی اڈوں کا قیام اور نئے شامی فوج کی تربیت شامل ہے۔ اس معاہدے سے ترکی کو شام میں نئے فضائی اڈے بنانے، شامی فضائی حدود کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور نئے شامی فوج کی تربیت میں اہم کردار ادا کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب شام کی نئی قیادت کی جانب سے اسٹریٹجک دفاعی انتظامات کے حوالے سے کوئی بات سامنے آئی تھی۔

 24 مارچ 2025 کو اسرائیلی نیوز ویب سائٹ "والا” نے دعویٰ کیا کہ شام کی عبوری حکومت ترکی کے ساتھ حمص کے علاقے تدمر میں ایک فوجی اڈہ کی حوالگی کے حوالے سے مذاکرات کر رہی ہے۔ جس کے بدلے میں شام کے لیے معاشی، فوجی اور سیاسی امداد حاصل کی جائے گی۔ ویب سائٹ نے حمص کے مشرقی علاقے میں "ترک فوجی موجودگی” کو اسرائیل کے لیے سنجیدہ تشویش کا باعث قرار دیا تھا۔

اسرائیلی لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) ‘ساریت زہاوی’ کی سربراہی میں قائم  تحقیقی مرکز "اسرائیل آلما” نے 25 مارچ 2025 کو دعویٰ کیا کہ ترکی شام کے اندر متعدد فوجی اڈوں کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، فضائیہ کے لیے شام کے علاقے ‘تدمر’ اور دیگر ہوائی اڈوں کے استعمال سے ترکی شام میں اپنی زمینی اور فضائی سرگرمیوں کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی نے شمالی شام کے "مینگ” فوجی ہوائی اڈے پر فوجیں اور ساز و سامان منتقل کر دیا ہے۔ ترکی نے اس اڈے کی تجدید اور توسیع کی ہے، وہاں ریڈار، فضائی دفاعی نظام اور اضافی سازوسامان نصب کیے ہیں تاکہ شام کی فضائی حدود کی نگرانی اور کنٹرول کر سکے۔ اسرائیلی تحقیقی مرکز نے اسے "ترکی کی شام میں براہ راست فوجی مداخلت بڑھانے اور خطے میں طویل مدتی ارادوں کو ظاہر کرنے والا پہلا قدم” قرار دیا گیا۔

اس اسرائیلی پلیٹ فارم نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ترکی ‘تدمر’ ائیر بیس کو جرمنی میں موجود امریکی "رامشٹائن” ائیربیس کی طرح کو کثیر المقاصد فوجی اڈہ بنانا چاہتا ہے، جس کو امریکہ روس اور پورے مشرقی جرمنی کی نگرانی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ انقرہ نے بڑی طاقتوں، بشمول اقوام متحدہ، پر واضع کیا ہے کہ وہ اس اڈے کو "ترک خودمختار علاقہ” سمجھتا ہے۔ اور خبردار کیا کہ اس پر کسی (اسرائیلی) حملے کا براہ راست فوجی جواب دیا جائے گا۔

اسرائیلی تحقیقاتی مرکز کا یہ دعویٰ شام کے ‘تدمر’ کے قریب واقع "ٹی-4” پر اسرائیل کے حملے کے فوری بعد سامنے آیا تھا۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے تدمر اور وسطی شام میں "ٹی-4” فضائی اڈے پر شامی فوج کے "اسٹریٹجک” فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ وہاں شام کی سب سے خطرناک Su-24M2 لڑاکا طیاروں کا دستہ موجود تھا، جن کا بنیادی کردار دمشق کا دفاع تھا۔

دفاعی ماہرین کے مطابق، شام کی جانب سے ترکی کو ‘تدمر’ میں فوجی اڈے دینے سے اسرائیل کی تشویش دو اہم وجوہات ہیں۔

اول: یہ اڈہ شامی فضائیہ کا ستون تھا، اس اڈے پر ترک لڑاکا طیاروں کی موجودگی کی وجہ سے اسرائیلی کی شام پر  فضائی دھونس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ترک فضائیہ نے جس طرح ماضی میں روسی طیاروں کا شکار کیا تھا، ویسے ہی اسرائیلی طیاروں کو بھی نشانہ بنا سکے گی 

دوئم: ترکی اس فوجی اڈے پر طاقتور ریڈار اسٹیشن قائم کرے گا۔ جس کا دائرہ مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے آگے اسرائیل تک ہو گا۔ جس سے اسرائیلی طیاروں کی کڑی نگرانی ہو سکے گی۔ نہ صرف ترک افواج اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی نقل و حرکت سے باخبر رہیں گی۔ بلکہ وہ اسرائیلی فضائیہ کی نقل و حرکت سے خطے کے دوسرے ممالک کو بھی متنبہ کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

"آلما” کے مطابق ترک ریڈار کی موجودگی کے باعث تل ابیب اور دیگر اسرائیلی ائیر پورٹ پر خفیہ دوروں پر آنے والی شخصیات کی سرگرمیوں کی تفصیلات بھی میڈیا میں شائع ہونا شروع ہو جائیں گی۔

اس کے علاوہ ترکی کی جانب سے شامی فوج کو جدید تربیت اور روایتی ہتھیار، خاص طور پر فضائی دفاعی نظام، میزائل، اور ڈرون فراہم کیے جانے سے اسرائیل کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

23 مارچ 2025 کو اسرائیلی میڈیا نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ "تل ابیب میں ترکی کے ساتھ شام میں براہ راست تصادم کا خوف بڑھ رہا ہے۔” ذرائع کے مطابق، شامی فوج اپنے فوجی اڈوں اور میزائل صلاحیتوں کی بحالی کی کوشش کر رہی ہے، نیتن یاہو نے اپنے مشیروں سے کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے اس تاثر کو پختہ کریں کہ ترکی کے ساتھ شام میں تصادم ناگزیر ہو چکا ہے۔

24 مارچ 2025 کو اسرائیلی وزیر خارجہ ‘گیدون سار’ نے ترکی کے شام میں اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ان کا ملک دمشق یا کہیں اور انقرہ کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا۔

اسی روز اسرائیلی اخبار "یدیعوت احرونوت” اور "چینل 12” نے خبر دی کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو شام میں "ترکی کے بڑھتے اثر و رسوخ” پر سیکیورٹی حکام کا اجلاس طلب کیا ہے۔ نیتن یاہو "شام کی نئی انتظامیہ اور ترکی کے درمیان بڑھتی قربت کو تشویش سے دیکھ رہا ہے۔”

امریکی ویب سائٹ "دی میڈیا لائن” نے کہا ہے کہ "بشار اسد کے خاتمے کے بعد ترک صدر اردوگان کی شام میں پالیسیاں ترکی اور اسرائیل کو براہ راست مسلح تصادم کے قریب لا رہی ہیں۔”

عرب آن لائن اخبار "الاستقلال” نے شام کے سیاسی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ترکی اور شام کے درمیان فوجی معاہدے کی بنیادیں مکمل طور پر تیار ہو چکی ہیں، جن میں شامی ہوائی اڈوں پر ترک فوجی موجودگی شامل ہے، لیکن اس معاہدے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا جائے گا۔

 26 مارچ 2025 کو "الجزیرہ نیٹ” نے شامی وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ "ترک اور شامی فوج کے درمیان مختلف علاقوں میں مشترکہ فوجی تنصیبات کے قیام کی کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ جو شمالی، مشرقی اور وسطی شام میں قائم کی جائیں گی۔ ان میں مینگ، دیر الزور، ٹی فور اور تدمر کے ائیربیسز بھی شامل ہیں۔ ان مشترکہ فوجی تنصیبات پر  ڈرون طیاروں کی تعیناتی بھی شامل ہے، جیسا کہ ترک فوج نے لیبیا کی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ ہوائی اڈے شامی فوج کی تربیت اور ترقی کے لیے مختص ہوں گے، جو دونوں فریقوں کے درمیان معاہدے کا حصہ ہے”۔

ترک اخبار "حریت” نے انکشاف کیا کہ انقرہ شام کے ساتھ فوجی تعاون کے تحت شامی فوج کو اپنی جدید دفاعی مصنوعات فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ، ترک فوجی مشیر شام بھیجے جائیں گے تاکہ اسد خاندان کے خاتمے کے بعد نئے شامی فوج کی تنظیم نو میں مدد کی جا سکے۔

Read Previous

ترکیہ کا اسرائیلی وزراء کے اشتعال انگیز بیانات پر شدید ردعمل

Read Next

ہم اس اخلاقی دیوالیہ پن کا حصہ نہیں بن سکتے: غزہ کی صورتحال پر پاکستان کا موقف

Leave a Reply