ہانگ کانگ میں چین کی طرف سے سخت سیکیورٹی قوانین عائد کرنے کے بعد دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اپنا کاروبار یہاں سے سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔
ٹِک ٹاک نے کہا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں اپنا دفتر بند کر رہا ہے اور آنے والے کچھ دنوں میں یہاں ٹِک ٹاک کی سہولت بند کر دی جائے گی۔ ادھر فیس بُک کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت کی طرف سے صارفین کا ڈیٹا فراہم کرنے کی درخواست پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
چین کی شارٹ ویڈیو ایپ کمپنی بائیٹ ڈانس نے ہانگ کانگ میں اپنا بزنس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ چین کی حکومت کی طرف سے سخت نیشنل سیکیورٹی قوانین میں کمپنی کیلئے کام کرنا ممکن نہیں ہے۔
ٹِک ٹاک کمپنی کے ترجمان نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہانگ کانگ میں کمپنی کے تمام آپریشنز بند کئے جا رہے ہیں۔ ٹِک ٹاک کمپنی کے مالک والٹ ڈزنی کے ایگزیکٹو کیوِن مائر نے کہا ہے کہ صارفین کا ڈیٹا چین میں اسٹور نہیں کیا گیا ہے۔
چین کی حکومت نے ٹِک ٹاک کمپنی سے کہا تھا کہ وہ صارفین کے ڈیٹا کی معلومات حکومت کو فراہم کرے جس پر کمپنی نے معذرت کر لی ہے اور کہا ہے کہ کسی صورت چین کی حکومت کو صارفین ڈیٹا کی معلومات نہیں دی جائیں گی۔
کمپنی کے ایک اعلیٰ افسر نے رائٹرز کو بتایا کہ ہانگ کانگ میں ٹک ٹاک ویسے بھی نقصان سے دو چار تھی کیونکہ پچھلے سال اگست تک ہانگ کانگ میں ٹک ٹاک کے صرف ڈیڑھ لاکھ صارفین رجسٹرڈ ہوئے تھے۔
اس سال کے پہلے تین ماہ میں دنیا بھر میں دو ارب صارفین نے ایپل اور گوگل پلے اسٹور کے ذریعے ٹاک ٹاک ایپ ڈاؤن کی تھی۔ ٹاک ٹاک کمپنی کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ چین کے نئے سیکیورٹی قوانین کے بعد آیا ہانگ کانگ کی خود مختاری قائم رہے گی یا پھر اسے چین کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
ٹک ٹاک کا سسٹم ایسا بنایا گیا ہے کہ چین کی حکومت کسی صورت اس کے ڈیٹا تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ہے لیکن کمپنی کو چین کی حکومت کی طرف سے ڈیٹا کی معلومات فراہم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔