
صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ خطے کے بعض ممالک جو کل تک مشرقی بحیرہ روم کے معاملے پر ترکی کو نظر انداز کر رہے تھے آج سفارتی بات چیت کے لئے آمادہ ہیں۔
کابینہ کے خصوصی اجلاس میں صدر ایردوان نے کہا کہ یونان اور دیگر ممالک کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ معاملات کو مذاکرات کی میز پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض ممالک ترکی کو نظر انداز کرتے ہوئے مشرقی بحیرہ روم میں اپنے مذموم نظریات اور نام نہاد نقشے جاری کر رہے تھے لیکن اب یہی ممالک ترکی سے بات چیت کے لئے تیار ہیں۔
صدر ایردوان نے کابینہ کو بتایا کہ یونان سمیت بعض دیگر ممالک بین الاقوامی قوانین، تاریخی حقائق، روایات اور واضح نظر آنے والی حقیقتوں پر آنکھیں موندے بیٹھے تھے اب ترکی اور ترک قبرص کے مشرقی بحیرہ روم میں حقوق پر دنیا کو کچھ بتانے کے قابل نہیں رہے۔
جو ممالک خطے اور دنیا بھر میں ترکی کے ساتھ بدزبانی کر رہے ہیں وہ صرف اپنی قبریں ہی کھود رہے ہیں۔ یونان کا ترکی کے ساحل کے ساتھ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس پر وہ دنیا میں مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کے حقوق غصب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا آج اسے پتہ چل گیا ہے کہ ترکی کسی صورت اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو گا چاہے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کی سمندری حدود دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اسی وجہ سے ترکی نے سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کی سرگرمیاں شروع کیں جو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہیں۔