ترکی کا سب سے گنجان آباد شہر استنبول جو کسی زمانے میں عثمانی دارالحکومت بھی رہ چکا ہے مینار اور گنبد اس شہر کی اسکائی لائن کا اہم جزہ ہیں۔ یوں تو استنبول بہت سی خوبصورت اور تاریخی مساجد کو اپنی جھولی میں سمیٹے بیٹھا ہے لیکن عثمانی دور کی انگنت مساجد اور مدرسے اب بھی لا پتہ ہیں۔ ایسی تمام قدیم عمارتیں جو استعمال میں نہیں ہیں اور پڑی پڑی ناکارہ ہو چکی ہیں یا دوسرے مقاصد کے لیے تبدیل کی گئیں اور بحالی کی منتظر ہیں ان کی کھوج کے بعد ان کی تجدید کے لیے ترکی کی ایک غیر سرکاری تنظیم کوشاں ہے۔ 2006 میں آغاز کے بعد سے استنبول ایسوسی ایشن تحفظ برائے ماحولیات ، ثقافت اور تاریخی عمارتیں (ISTED) تقریبا 400 مساجد دریافت کر چکا ہے جو طویل عرصہ پہلے بھلائی جا چکی ہیں۔ یہ تنظیم شمال مغربی ترکی میں ایک اور سابقہ عثمانی دارالحکومت ایڈیرن میں بھی سرگرم ہے جو اپنے ماہرین تعلیم ، محققین اور سروے انجینئرز کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ تنظیم کے ممبران عثمانی دستاویزات، تاریخی نقشوں، زمینی کاغذات کی کانچ کر کے ان مقامات پر جا کر گمشدہ عمارتوں کو کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف تاریخی مقامات کی بحالی ہے۔ مسجد یا مدرسے کی نشاندہی کے بعد حکام سے ان کی بحالی کی درخواست کرتے ہیں۔ درخواست منظور ہونے کے بعد انجمن کے لئے کام کرنے والے معمار اصلی ڈیزائن کی بنیاد پر ڈھانچے کو ڈیزائن کرتے ہیں اور امدادی رقم سے عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ اب تک استنبول جہاں بلیو مسجد ، ٹوپکپی محل، اور آیا صوفیا جسے حال ہی میں مسجد کا درجہ دیا گیا تاریخی شاہکار ہیں میں 22 مساجد تلاش کی جا چکی ہیں ۔
انجمن کے چیئرمین ڈاکٹر ارحان ساریشن نے انادولو ایجنسی (اے اے) کو بتایا کہ انہوں نے اس منصوبے کا آغاز 1990 میں کیا جب رجب طیب ایردوان استنبول کے میئر تھے۔