
قسط نمبرا
نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلنگٹن میں ایک بڑا شاندار میوزیم ہے ۔ ویلنگٹن کا یہ میوزیم اپنی مثال آپ ہے ۔ گو نیوزی لینڈ کی تاریخ بہت مختصر ہے اور جو ہے عالمی اعتبار سے بھی اس تاریخ کی کوئی خاص حثیت نہیں لیکن اپنی بناوٹ ترتیب اور نظم ونسق کے اعتبار سے اتنا شاندار میوزیم میں نے کم ہی دیکھا ہے۔
اس میوزیم کے چار حصے ہیں
پہلا اور سب سے بڑا سب سے زیادہ مصروف اور بہترین حصہ وہ ہے جو جنگ عظیم اول کی گیلی پولی جنگ سے متعلق ہے ۔جسے ترک جنگ قلعۂ چناق Çanakkale Savasi کہتے ہیں ۔ اس میں ہونے والے نیوزی لینڈ کے جانی نقصان اور شکست کو بہت خوبصورت اندازمیں محفوظ کیا گیا ہے۔ گیلی پولی کی جنگ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی چھوٹی سی تاریخ کا واحد المیہ ہے جس کے گرد ان کی ساری تاریخ گھومتی ہے ۔ جب ۱۹۱۵ء میں اپنے آباؤاجداد کی تقلید میں یہ دونوں نو آموز اور نو آباد ملک ترکی کی آبنائے دانیال Dardanelles Strait پر قبضہ کرنے کے لئے گیلی پولی پر حملہ آور ہوئے اور ترکوں نے مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا تھا ۔ اس جنگ میں شریک ہونے والے بہت تھوڑے فوجی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا واپس پہنچے تھے اور ان میں سے بھی اکثریت زخمیوں کی تھی ۔
یہ جنگ ۱۹ فروری ۱۹۱۵ء سے ۹ جنوری ۱۹۱٦ء تک تقریباً گیارہ ماہ تک جاری رہی ۔ اس جنگ میں نیوزی لینڈ کے پندرہ ہزار فوجی شریک ہوئے جن میں سے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ مارے گئے اور پانچ ہزار زخمی ہوئے تھے ۔ جبکہ کلاڈفلٹر Clodfelter کے بیان کے مطابق اتحادیوں کی مشترکہ فوج کی تعداد تین لاکھ سے اوپر تھی ۔ اور اس میں ۵۸ ہزار اتحادی فوجی مارے گئے اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے تھے ۔
ترکوں کا جانی نقصان بھی کم نہ تھا ۔ ۵٦ہزارترک فوجی اس جنگ کی آگ کا ایندھن بنے ۔
اس جنگ میں اتحادیوں کو بری طرح شکست ہوئے اور یہ جنگ اتحادیوں کے لئے ایک ایسا ڈرؤانا خواب بن کر رہ گئی اور وہ آج سو سال بھی اس بھیانک خواب سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے
اس میں سب سے زیادہ نقصان نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا کا ہوا جنہیں اتحادیوں نے چارا بنا کر ہراول دستے کی صورت میں پہاڑیوں پر موجود ترکوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا ۔ نیوزی لینڈ والوں کو فخر ہے کہ ان کی رجمنٹ سب سے پہلے گیلی پولی پر لینڈ ہوئی اور سب سے آخر میں وہاں سے نکلی ۔
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا ہر سال پچیس اپریل کو Anzac Day مناتے ہیں اور اپنی اس شکست کا ماتم کرتے ہیں
ملک بھر میں عام تعصیل کا دن ہوتا ہے ۔ ہر شہر ہر قصبے میں تقاریب منعقد ہوتی ہیں ۔ پریڈ ہوتی ہے اور مرنے والوں کو یاد کیا جاتا ہے یہ جنگ اور اس میں شکست ان کے تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ ہے یہاں تک کہ جو لوگ ان ملکوں کی شہریت لیتے ہیں ان کے لئے بھی اس جنگ کے بارے میں جاننا ضروری ہے ۔ اس جنگ کی یاد میں دونوں ملکوں نے بڑے شاندار میوزیم اور یادگاریں قائم کر رکھی ہیں اور سکولوں میں اپنی آنے والی نسلوں کو بڑے اہتمام اور دلجمعی سےاس شکست کا سبق پڑھاتے ہیں ۔
لیکن کیا انہوں نے اپنی اس شکست سے کوئی سبق بھی سیکھا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم گلف وار اور افغانستان کی جنگوں میں شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ آج بھی اپنے آباؤاجداد کی اتباع میں ان کی کسی بھی جنگ میں کودنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔
ولینگٹن نیشنل میوزیم کے اس حصے میں گیلی پولی کی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کے دیو قامت زندگی کے انتہائی قریب حالت جنگ میں مجسمے بنائے گئے ہیں ۔ جنہوں نےاس جنگ میں نمایاں کارگردگی کا مظاہرہ کیا ۔ یہ مجسمے جنگ میں شریک ہونے والے ان سپاہیوں کی جنگ کے احوال کو بڑے پر اثر انداز میں پیش کرتے ہیں ۔
اس جنگ میں استعمال ہونے والی اصلی اشیاء گولہ بارود اور ہتھیار بھی نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں ۔ یہ مجسمے اتنے شاندار اور حقیقت کے اتنے قریب ہیں۔
کہ انہیں دیکھ کر اتحادیوں سے خوامخواہ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے اور ترکوں کو ظالم ماننے کو دل کرتا ہے ۔ حالانکہ اتحادی حملہ آورتھے اور ترک محض اپنے گھر کا دفاع کر رہے تھے ۔
یہی بات اس میوزیم کے مین انٹری گیٹ پر اس آفیسر جیمس والیس واٹسن James Wallace Watson کے حوالے سے کندہ ہے جو جنگ قلعہ چناق میں شریک تھا ۔
جنگ میں زخمی ہوا اپنی ایک ٹانگ سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔
نیوزی لینڈ واپس پہنچ کر اس نے “ ہماری لڑائی ان کی زمین“ کے عنوان سے کتاب لکھی جس کا اقتباس یہاں اس دیوار پر درج ہے وہ لکھتا ہے کہ
“ ترک بڑے بہادر تھے ۔ وہ اپنے وطن کے لئے لڑ رہے تھے ۔ یہ ان کا وطن تھا جسے چھیننے کی ہم کوشش کر رہے تھے ۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ بڑے برے جنگجو ہیں اور انہیں ۱۹۱۳-۱۹۱۲ء کی بلقان جنگ میں بہت بری شکست ہوئی تھی ۔ لیکن اس شکست نے انہیں اگلی جنگ کے لئے تیار ہونے میں مدد دی ۔
جن ترکوں سے ہمارا واسطہ پڑا وہ بہت سخت کوش جنگجو اور بہترین تربیت یافتہ تھے اور بہترین راہنما کی نگرانی میں لڑ رہے تھے ۔ یہ ان کا گھر تھا اور انہوں نے اس کا دفاع اونچی پہاڑیوں پر سے کیا اور ہمیں بڑی کامیابی سے نیچے سمندر میں دھکیل دیا ۔ “
Our fight their land
“ Turks were very brave men , they were fighting for own country, it was their land that we were trying to take .
We were told that Turks were very poor fighters,they had been well beaten in Balkan war of 1912-1913, but that helped prepare them for this one .
The Turks facing us were battle hardened,well trained and well led.
This was their home and they defended it by holding the high ground and trying to drive us back to the sea. “
Trooper James Wallace Watson
میوزیم دیکھ کر میں باہر نکلا تو اس دیوار کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا جس پر لکھی اس عبارت کا ایک ایک لفظ ترکوں کی بہادری اور حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔
میری چشم تصور میں ۱۸ مارچ ۱۹۱۵ء کےوہ مناظر گھوم رہے تھےجب صبح دو بجے ہزاروں اتحادی پیرا شوٹرز گیلی پولی کے ساحل پر اترنا شروع ہوئے ۔ اور انہوں نے چناق قلعہ اور یورپی حصے میں واقع قلعہ کلید البحر Kilitbahir Castle کو ہوا سمندر اور زمین ہر طرف سے نشانہ بنا کر فوجی اعتبار سے اہم ترین دردانیال Dardanelles کے اس سب سے تنگ اور مختصر حصے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جو خلیج گیلی پولی کا دروازہ کہلاتا ہے ۔ اس پر قبضے کے بعد استنبول ان کی جھولی میں گر جاتا ۔ انہیں سمندر میں موجود اتحادیوں کے طیارہ بردار بحری جہازوں اور سمندر میں چھپی آبدوزوں اور آسمان پر منڈلاتے ہوائی جہازوں کی بھی پوری مدد حاصل تھی ۔
کمال پاشا کی سربراہی میں ترکوں نے بھر پور مزاحمت کی ۔ ترکوں نے خلیج گیلی پولی کے اس حصے کو مائنز mines سے بھر دیا تھا ۔ اتحادیوں نے اپنی ساری نیوی اور ائیر فورس کی طاقت اس جنگ میں جھونک دی تھی لیکن ترکوں کی بہادری ، بہترین فارمیشن اور اولعزم قیادت کے سامنے ان کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں ۔
ترک نیوی نے جرآت اور بہادری کی وہ داستانیں رقم کیں جو ترک آج تک بڑے فخر سے اپنی نسلوں کو سکولوں میں پڑھاتے ہیں ۔
۱۸ مارچ کا دن اس جنگ کا ٹریننگ پوائینٹ turning point تھا ۔
اس دن اتحادیوں کو پہلی جنگ عظیم کی برترین شکست سے دو چار ہونا پڑا ۔ خلیج گیلی پولی اتحادی نیوی کے لئے موت کا منہ ثابت ہوئی ۔
برطانیہ کے چار جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس او شئین HMS Ocean , ایچ ایم ایس ٹریمپ HMS Triumph, ایچ ایم ایس گولئیتھ HMS Goliath، ایچ ایم ایس اررئیورسبل HMS Irreversible اور ایک فرانسیسی بحری جہاز بوویٹ Bouvet آسٹریلین آبدوز AE2 اور فرانسیسی آبدوز جیول Joule سمندر میں بچھی ان مائنز mines کی نذر ہو کر مکمل طور پر تباہ وبرباد ہو گئیں ۔ درجنوں بحری جہازوں اور آبدوزوں کو نقصان پہنچا ۔ سینکڑوں طیارے ترکوں کی گن شپ توپوں کا نشانہ بنے ۔ ہزاروں اتحادی سپاہی اس روز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ایک دن میں اتنا بڑا جانی نقصان اتحادیوں کو پہلے کبھی نہیں اٹھانا پڑا تھا ۔
اتحادی فوجی اتنی بڑی تعداد میں مرے کہ اتحادی فوج کے لئے ان کی لاشیں اٹھانے کا بھی یارا نہ تھا اکثر لاشوں کو ترکوں نے ہی میدان جنگ میں دفنایا ۔
اٹھارہ مارچ کے دن اتحادیوں کی اس سمندری حملے میں شکست اتنی مکمل ، بھرپور اور بھیانک تھی کہ پھر وہ دوبارہ کبھی سمندر کی جانب سے حملہ کرنے کی جرآت نہ کر سکے اور اپنی حکمت عملی بدل کر زمینی جنگ پر مجبور ہو گئے ۔
اسی میوزیم کی ایک اور دیوار پر اتحادی کمانڈر لفٹیننٹ جنرل الیگزینڈرگڈلی Alexander Godley کے خط کا اقتباس بھی درج ہے جو اس نے شکست کے بعد پسپا ہوتے وقت ترک جنرل کے نام اپنے مورچے میں چھوڑا تھا ۔
“ A final plea , our soldiers have fallen far from home fighting gallantly & deserve that a gallant foe, such as we have found the Turkish soldiers to be , should take care of their last resting place.”
“ ایک آخری درخواست !
ہمارے سپاہی اپنے گھروں سے دور بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے ۔ اور ایک اچھے سلوک کے متقاضی ہیں ۔ ہم نے بہادر ترکوں کو میدان میں بہادر پایا اور توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کی آخری آرام گاہوں کا بھی اچھا خیال رکھیں رکھیں گے ۔”
ترک ہر سال اٹھارہ مارچ کا دن اپنی اس فتح کے جشن کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ اس دن کی فتح نے انہیں ایک نئی طاقت ، ایک نئے عزم ، ایک نئے قومی شعور اور اپنے ملک کے دفاع کے لئے ایک نئے جذبے سے سرشار کیا تھا ۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ اب بھی ایک زندہ قوم ہیں اور ان کی بلقان کی جنگ میں شکست کی بددلی اور مایوسی حوصلے اور امید میں بدلنے لگی ۔
میں اپنی انہی سوچوں میں مگن تھا کہ مجھے بلال کی آواز سنائی دی وہ تھوڑی دور میوزیم کی مغربی دیوار کے سامنے کھڑا مجھے بلا رہا تھا ۔
جب میں اس کے قریب پہنچا تو وہ کمال پاشا کی تصویر کے نیچے کھڑا تھا جس کے ساتھ دیوار پر کمال پاشا کے ایک خط کا اقتباس کندہ تھا ۔
” Those heroes that shed their blood & lost their lives are lying in the soils of a friendly country & are in peace . They have become our sons as well
یہ ایک بہادر جنرل کا جواب تھا جو اس نے شکست خوردہ اتحادی کمانڈر کے اس خط کے جواب میں لکھا ۔ جو اس نے پسپا ہوتے وقت اہنے مورچے میں چھوڑا تھا ۔
آج چناق قلعہ اور گیلی پولی کے طول وعرض میں ان سپاہیوں کی لاکھوں قبریں بکھری ہیں جو اس جنگ کی بھینٹ چڑھے۔ ان میں اکثریت ان اتحادی فوجیوں کی ہیں ۔ جو اپنے وطن اور ملک سے ہزاروں میل دور اس میدان جنگ میں مرے اور یہیں دفنا دئیے گئے۔
سال بھر ساری دنیا سے ان سپاہیوں کے عزیز واقارب اپنے ان پیاروں کی قبروں پر یادوں کے چراغ جلانے آتے ہیں ۔ چناق قلعہ اور گیلی پولی آسٹریلین ، نیوزی لینڈ ، فرانس انگلینڈ اور انڈیا کے سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہے ۔ جو گیلی پولی جنگ میں اتحادی فوجوں کی شکست کے مزار دیکھنے آتے ہیں ۔
خاص طور پر اپریل میں تو یہاں میلہ سا لگتا ہے ۔ کیونکہ ۲۵ اپریل کو ان ملکوں میں ANZAC Australian New Zealand Army Corps ڈے منایا جاتا ہے ۔
اور بے شمار آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے باشندے اپنے ملکوں اس دن کو منانے کی بجائے اپنے پیاروں کی قبروں کا دیدار کرنے کے لئے چناق قلعہ پہنچ جاتے ہیں جنہیں ترکوں وعدے کے مطابق بڑے اہتمام سے سنبھال رکھا ہے ۔
چناق قلعہ میں بھی ایک شاندار میوزیم بنایا گیا ہے جس میں ترکوں نے ۱۸ مارچ کی یادوں کو مجسموں اور جنگ میں استعمال ہونے والی اشیاء اور ہتھیاروں کی صورت میں زندہ رکھا ہے اسی میوزیم کے باہر میدان میں ایک ترک فوجی کا مجسمہ نصب ہے ۔
جو اپنے ہاتھوں میں ایک زخمی اتحادی سپاہی کو اٹھائے علاج کے لئے لے کر جا رہا ہے ۔
فلک کج رفتار نے اپنے گھروں اور ملک پر حملہ آور دشمنوں سے ایسا حسن سلوک پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ترکوں نے ثابت کیا کہ میدان جنگ میں وہ بہادر اور دندان شکن دشمن ہونے کے ساتھ اچھے بہادر اور رحمدل انسان بھی ہیں ۔
ترکوں کے اپنے دشمنوں کے ساتھ اس حسن سلوک کو تاریخ نے یاد رکھا اور شائید اسی لئے یہ جنگ جنٹل مین کی جنگ Gentlemen,s Battle بھی کہلاتی ہے ۔
گیلی پولی کی جنگ وہ جنگ تھی جو اگر اتحادیوں کو یاد رہی تو اسے بھولے ترک بھی نہیں اور وہ ہر سال بڑی دھوم دھام سے ۱۸ مارچ کے دن اسے مناتے ہیں تاکہ اپنے زخموں کو تازہ رکھ سکیں ۔
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را