بی بی سی نے سرخی لگائی ہے کہ ترکی میں طلبا سراپا احتجاج ہیں بچی کھچی کسر ان یوٹیوبرز نے پوری کر دی جن کے پاس کنٹینٹ کوئی نہیں تو اپنے آپکو مشہور کرنے کے لیے اس خبر کو اس صیغے سے پیش کر رہے ہیں جیسا کہ ترکی میں گلی گلی اور کوچہ کوچہ پولیس اور طلبا کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں کیوں کہ کہا جا رہا ہے کہ ترکی میں حالات بہت خراب ہیں ترکی کے طلبا اور صدر آمنے سامنے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات بہت خراب ہیں کیوں کہ ایک طرف سخت برفباری ہو رہی ہے اور ٹمپرچر مائنس ہے اور دوسری طرف کورونا کی وجہ سے ہفتہ اتوار کو باہر نکلنے پر پابندی ہے لیکن یہ دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں کہ ترکی میں طلبا سراپا احتجاج ہیں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جملہ کی اس ترکیب کو سنتے ہی یقین ہوتا ہے کہ پورے ملک میں طلبا سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف استنبول کی ایک یونیورسٹی کے اندر ہو رہا ہے۔
احتجاج کی حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ یونیورسٹی ترکی میں اپنے خیالات اور نظریات کے لئے ایسی مشہور ہے جیسا کہ ہندوستان میں سرسید کی علی گڑھ یونیورسٹی اور پاکستان میں قائداعظم یونیورسٹی۔ یہ سیکولرز کا مرکز سمجھا جاتا ہے یہاں جو بھی وائس چانسلسر (ریکٹر) تعینات ہوتا تو وہ ان ہی کے نظریات کا بندہ ہوتا اس بار جو ریکٹر تعینات ہوا ہے چوں کہ ان کا تعلق نظریاتی طور پر مخالف صفوں سے ہے اس لیے انہوں نے احتجاج شروع کیا جو کہ قانونًا درست نہیں کیوں کہ ریکٹر کی تعیناتی کا اختیار اساتذہ اور طلبا کے پاس نہیں بلکہ صدر مملکت جس کو بھی اس منصب کے لیے بہتر سمجھیں تعینات کرسکتے ہیں اور یہ احتجاج سڑکوں پر نہیں بلکہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ایک یونیورسٹی کے احتجاج کو کیوں پورے ترکی کے طلبا کے احتجاج کے طور میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب چند اساتذہ اور طلبا اس تعیناتی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جو پلے کارڈز انھوں نے اٹھائے تھے تو ان میں عالمی جنس پرست تنظیم (LGBT) کے جھنڈے اور نعرے درج تھے انتہا یہ تھی کہ بعض مظاہرین نے خانہ کعبہ کی تصویر پر مذکورہ تنظیم کا جھنڈا پینٹ کرکے عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کی تھی جس پر وزیر داخلہ نے فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا جب کہ صدر مملکت نے بیان دیا تھا کہ ہم نوجوانوں کو جنس پرست نہیں بننے دیں گے یہ بیان جوں ہی میڈیا پہ آیا تو مغربی میڈیا نے طوفان پر برپاکر دیا اور اس کو آزادی اظہار رائے پر پابندی اور عدم برداشت کا نام دیا اور ترکی کے خلاف ایک میڈیا وار شروع ہوگئی۔
احتجاج کرنے والوں کے لئے “چند” کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ترکی میں کورونا کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں یونیورسٹیاں بند ہیں ہم ان لائن کلاسز لے رہے ہیں اس لیے اس احتجاج میں طلبا کم اور خارجی لوگ زیادہ تھے جن کا یونیورسٹی کے ساتھ تعلیمی یا پروفیشنل کوئی تعلق نہیں تھا صرف انارکی پیدا کرنے کے لیے اس احتجاج کے لیے باہر سے لائے گئے تھے جو گرفتار ہوئے ہیں اور یہ تقریبا دنیا میں سیکولرز نظریات کے حاملین کا یکساں طریقہ واردات ہے کہ جب بھی ایسا کچھ ہوتا ہے تو باہر سے غیر متعلقہ لوگوں کو لایا جاتا ہے جس کا مظاہرہ کئی بار اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی میں دوران تعلیم کرچکے ہیں۔
اس لیے! نہ پورے ملک کے طلبا سراپا احتجاج ہیں اور نہ ترکی میں طلبا اور صدر آمنے سامنے ہیں جیسا کہ پیش کیا جا رہا ہے۔
گوموش خانہ یونیورسٹی ، ترکی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ اسلام، استشراق اور عالمی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
alam.khan@turkeyurdu.com