turky-urdu-logo

تُرکی کا اثر و رسوخ کم کرنے کیلئے سعودیہ اسرائیل گٹھ جوڑ

مسجد اقصیٰ کے معاملات میں تُرکی کا اثر و رسوخ محدود کرنے کیلئے سعودی عرب اور اسرائیل میں خفیہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ دسمبر 2019 میں سعودی عرب اور اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے انتظامات میں تُرکی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کیلئے باقاعدہ مذاکرات کئے۔ اس وقت اردن مسجد اقصیٰ کے معاملات کا نگران ہے جس میں عرب کے دیگر ممالک ایک کنسورشم کی صورت میں موجود ہیں۔ ترکی بھی اس کنسورشم کا ایک اہم حصہ ہے۔ مسجد اقصیٰ کے معاملات کی نگرانی کیلئے قائم وقف 1948 سے کام کر رہا ہے اور اردن وقف میں موجود ممالک کی پوزیشن تبدیل کرنے کا مخالف ہے۔ تاہم ترکی کا وقف میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کیلئے تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔

مڈل ایسٹ آئی ڈاٹ نیٹ ویب سائٹ نے مختلف سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کا تُرکی کے خلاف گٹھ جوڑ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے اس امن منصوبے کا حصہ ہے جسے وہ صدی کا سب سے بڑا معاہدہ قرار دیتے ہیں۔  

سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے مذاکرات انتہائی حساس ہیں۔ اس بات چیت میں امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے سفارتکاروں کی ایک ٹیم اور سیکیوٹی حکام شامل ہیں۔

سعودی عرب کے ایک سینئر سفاتکار کے مطابق اردن مسجد اقصیٰ کے معاملات کیلئے بنائے گئے وقف بورڈ کی ترتیب میں کسی بھی تبدیلی کا مخالف ہے تاہم تُرکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے عمان نے اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تُرکی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کیلئے سعودی عرب کو وقف بورڈ میں آبزرور کی حیثیت سے شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم اردن کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی کسٹوڈین کی حیثیت سے وہ اپنی پوزیشن کسی صورت تبدیل نہیں کرے گا۔ وقف بورڈ نے تُرکی سے آنے والے فنڈز میں بھی کمی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تُرکی کے اثر کو کم کیا جا سکے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی عرب کی وقف میں آبزرور کی حیثیت سے شمولیت پر اردن کو بھی اعتراض ہے کیونکہ اردن سمجھتا ہے مستقبل قریب میں سعودی عرب کہیں اردن کی حیثیت ختم کر کے خود کسٹوڈین نہ بن جائے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے تُرک مخالف مذاکرات پر ابھی کچھ خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل مسجد اقصیٰ کے معاملات میں سعودی عرب کے کردار کو مرکزی حیثیت دینے کے اقدامات کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب مسجد اقصیٰ کے معاملات سعودی عرب کے پاس چلے جائیں۔

Read Previous

لاک ڈاؤن سے فلسطین میں غربت کی شرح دگنی ہو جائے گی، عالمی بینک

Read Next

تُرک ڈرامہ ارطغرل:عرب حکمران ابھی تک خوفزدہ ہیں،مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ

Leave a Reply