سعودیہ عرب اور ترکی کے تعلقات ابھی تک معمول پر نہیں آسکے ۔
سعودیہ عرب نے غیر سرکاری طور پر ترکی کا بائیکاٹ جاری رکھا ہوا ہے۔
مکہ اور مدینہ میں ترکی کے 8 سکول گذشتہ سال سے بند ہیں ۔
سعودی حکومت ان سکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔
دو ترک وزرائے تعلیم نے گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا کہ انتہائی کوششوں کے باوجود سعودیہ عرب کی افسر شاہی کو سکول کھولنے پر آمادہ نہیں کر سکے۔
ترک ڈائریکٹر جنرل اورسیز ایجوکیشن احمد بلگلی نے پارلیمنٹ کو بریفنگ دیتےہوئے بتایا کہ سال 2020 کے آخر سے اب تک ترک سکول بند ہیں ہم نے سفارتی ذرائع سے بھی سکول کھولنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن سعودیہ حکومت نے سکول کھولنے کی اجازت نہیں دی۔
ایک اور ترک افسر بورجو داکرن نے کہا کہ گذشتہ سال نومبر میں صدر رجب طیب ایردوان اور سعودی فرمارواہ شاہ سلمان کے درمیان ٹیلیفونک رابطے کے بعد مدہم سی امید پیدا ہوئی تھی لیکن سعودیہ حکومت کے غیر سرکاری بائیکاٹ نے ابھی تک کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
ترک وزارت تعلم نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ سعودیہ عرب میں 26 ترک سکول کام کر رہے ہیں لیکن 2 مقدس ترین شہروں کے ترک سکول کھولنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
گذشتہ سال ترکی میں سعودی نثات امریکی صحافی جمال کشوگی کے قتل کیس کی کاروائی عدالت میں شروع ہونے کے بعد سعویہ عرب نے ترکی کے خلاف غیر اعلانیہ اور غیر سرکاری بائیکاٹ شروع کر دیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اکتوبر 2018 میں اس وقت خراب ہو گئے تھے جب انقرہ میں سعودیہ سفارت خانے میں جمال کشوگی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا اور اسکی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ذائع کر دیا گیا تھا۔
امریکی سی آئی اے نے اس قتل کی براہ راست ذمہ داری سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کی ہے۔
اکتوبر 2018 سے سعودی حکومت اپنے تاجروں کو ترکی کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک رہی ہے ۔
اس سال فروری میں ترکی کی سعودیہ عرب کو برآمدات میں 92 فیصد کی غیر قانونی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ترک ادارائے شمالیات کے مطابق فروری میں ترک تاجروں نے صرف 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر مالیت کی مصنوعات سعودی عرب بھیجیں جبکہ گذشتہ سال فروری میں برامدات کا حجم 29 کروڑ ڈالر تھا۔
2020 میں سعودی عرب کو ترکی کی ایکسپورٹس 2 ارب 30 کروڑ ڈالر رہیں جو 2019 میں 3 ارب ڈالر سے زیادہ تھیں ۔
صدر رجب طیب ایردوان نے سعودی فرما رواں شاہ سلمان سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے صورت حال کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
گذشتہ سال نومبر میں ترک وزیر خارجہ ہلوت چاوش اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرہان کی ملاقات کے باوجود بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری نہیں آسکی ہے۔