Shoppers walk through the Nishiki market in Kyoto, Japan, on Thursday, Jan. 14, 2021. Japan expanded its state of emergency beyond the Tokyo region to encompass the countrys other main economic hubs including Osaka, as it battles to contain a record surge in coronavirus cases. Photographer: Kosuke Okahara/Bloomberg
سال 2020 جس کورونا وائرس نے عالمی وبا کی شکل اختیار کی لیکن اس سال جاپان میں خودکشی حالیہ دس برسوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور نوجوانوں کی رہی۔
جاپان کی وزارت صحت نے اسے خطرناک ترین صورتحال قرار دیا۔ جاپان کی نیشنل پولیس ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 20,919 افراد نے خودکشی کی جو 2019 کے مقابلے میں 3.7 فیصد زائد ہے۔ خودکشی کرنے والوں کی تعداد حالیہ گیارہ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اکتوبر 2020 میں سب سے زیادہ 2,199 افراد نے خودکشی کی۔
جاپان کی وزارت صحت، لیبر اور ویلفیئر کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ممکن ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا نے خودکشی کے رجحان کو بڑھا دیا ہو کیونکہ گذشتہ سال معیشت کساد بازاری کا شکار رہی۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ خواتین اور خاص طور پر نوجوانوں کے ساتھ مشاورتی خدمات کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور ضرورت مند افراد کو امدادی تنظیموں کے ذریعے مدد فراہم کی جائے گی۔
مردوں میں خودکشی کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ 2020 میں مجموعی طور پر 13,943 مردوں نے خود کشی کی لیکن خواتین میں خودکشی کی شرح 14.5 فیصد زائد رہی جو حالیہ برسوں میں بلند ترین شرح ہے۔
جاپان میں طالب علموں میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ 2020 میں 440 طالب علموں نے خودکشی کی جو 1986 کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے جب 401 طالب علموں نے اپنی جان لے لی تھی۔
جاپانی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث خودکشیاں بڑھی ہیں کیونکہ جاپان میں چائلڈ کیئر انتہائی مہنگا سیکٹر ہے۔ عالمی وبا کے باعث کئی لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں اور گھروں سے کام کرنا ممکن نہ رہا جس کے باعث لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔