
آج سے ٹھیک 27 سال پہلے 25 فروری 1994 میں انتہاپسند یہودیوں نے فلسطین کی مسجد ابراہیم پر حملہ کیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس حملے میں 29 فلسطینی مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق یہودی آبادکاروں کے ایک گروہ نے منصوبہ بندی کر کے مسجد ابراہیم پر حملہ کیا جس میں انہیں اسرائیلی فوج کی مدد حاصل تھی۔
جس وقت یہودیوں نے مسجد ابراہیم پر حملہ کیا وہ جمعہ کا دن تھا اور فلسطینی مسلمان فجر کی نماز ادا کر رہے تھے۔
مسلمان مسجد ابراہیم کو انتہائی مقدس سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار ہے۔
یہودی بھی اس جگہ کو مقدس مانتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ یہ ان کے آباوٗ اجداد کی غار پر مسجد بنائی گئی ہے۔
اس قتل عام کے ایک عینی شاہد 60 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر خمیس قافشہ کا کہنا ہے کہ فجر کی نماز کے وقت جب یہودی آبادکاروں نے مسجد ابراہیم پر حملہ کیا تو اسرائیلی فوج وہاں موجود نہیں تھی حالانکہ اس سے ایک دن پہلے جمعرات کو مغرب کی نماز کے وقت مسلمانوں اور انتہاپسند یہودیوں میں جھڑپ ہوئی تھی۔ اس وقت اسرائیلی فوج فوری طور پر موقع پر پہنچ گئی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی حملہ آوروں کو اسرائیلی فوج کی مدد حاصل تھی۔
خمیس قافشہ نے کہا کہ جمعرات کو ہی عشا کی نماز کے وقت اسرائیلی فوج نے مسلمانوں کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ مسجد میں ابھی انتہاپسند یہودی آبادکار موجود ہیں۔
خمیس قافشہ کے مطابق جمعہ کی صبح جب وہ نماز فجر کے لئے مسجد ابراہیم جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ جن چیک پوسٹوں پر اسرائیلی فوج تعینات تھی وہ اس دن خالی تھیں اور اسرائیلی فوج وہاں موجود نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ ابھی وہ مسجد سے دور ہی تھے کہ انہیں زوردار آواز سنائی دی پہلے وہ سمجھے کہ زلزلہ آیا ہے لیکن بعد میں فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ انتہاپسند یہودیوں نے مسجد ابراہیم پر بموں اور بھاری اسلحے سے حملہ کیا تھا۔
خمیس قافشہ نے کہا کہ حملے کے دوران وہ ایک جگہ چھپ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ اسرائیلی نژاد امریکی بروش گولڈسٹین ایک رائفل اور پستول پکڑے واپس بھاگ رہا تھا۔ بروش اسرائیلی فوج میں فزیشن تھا اور کیریات اربع کی یہودی آبادی میں رہتا تھا۔ بعد میں مسلمانوں نے بروش کو پکڑ لیا اور اسے قتل کر دیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق انتہاپسند یہودیوں کے حملے میں زیادہ تر عمر رسیدہ اور بچے مارے گئے کیونکہ وہ امام کے پیچھے صف میں سب سے پہلے کھڑے تھے۔
انتہاپسند یہودیوں کے حملے کے بعد مسجد ابراہیم خون سے رنگ گئی اور ہر طرف انسانی خون اور انسانی جسم کے اعضا بکھرے پڑے تھے۔