
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سعودی عرب پر براہ راست شدید تنقید کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ایک سال تک نہ بلانے کے بیان پر سعودی عرب پاکستان سے خاصا ناراض نظر آتا ہے۔
4 اگست کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر او آئی سی پاکستان کے مطالبے پر اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے پر تیار نہیں ہے تو پاکستان ایسے اسلامی ممالک کا اجلاس از خود بلائے گا جو کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔
او آئی سی پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کے باعث تنظیم پر پاکستانی وزیر خارجہ کی شدید تنقید سے ایک نئے بلاک کی بو آنے لگی جس نے سعودی عرب کو ناراض کر دیا۔
سعودی عرب نے پاکستان کو نومبر 2018 میں دیئے جانے والے ایک ارب ڈالر کے قرض کو فوری طور پر واپس کرنے اور ادھار پر تیل فراہم کرنے کے معاہدے کو توسیع دینے سے انکار کر دیا۔
صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل جاوید قمر باجوہ 17 اگست کو ریاض پہنچے لیکن ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع خالد بن سلمان بن عبدالعزیز سے مختصر ملاقات کے بعد واپس پاکستان پہنچ گئے۔
جیسے ہی جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان پہنچے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فوری طور پر چین کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ وزیر خارجہ کا چین کا دورہ دراصل سعودی عرب کو بآور کرانا تھا کہ پاکستان دیگر اتحادیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سر نو ترتیب دے رہا ہے۔
پاکستان کی حالیہ سفارتی جنگ کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا میں کچھ نئے اتحاد بن رہے ہیں۔
کچھ عرصے سے پاکستان مسلم طاقتوں کے مخالف ممالک کے ساتھ نیوٹرل رہنے کی روایتی پالیسی پر گامزن ہے۔
پاکستان سعودی عرب کے مخالف کیمپ کے ممالک ملائیشیا، ترکی اور قطر کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے جو کسی بھی طور پر سعودی عرب کو پسند نہیں ہے۔
چین اور ایران کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کی شراکت کے بعد پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی جہت مل رہی ہے۔ سعودی عرب جو ایران کو خطے میں اپنے مقاصد کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے وہ چین کی سربراہی میں پاک ایران تعلقات کو کسی بھی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اگست 2019 میں مودی حکومت کا کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے معاملے پر پاکستان عرب ممالک کی طرف سے کشمیر پالیسی پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی امید لگائے بیٹھا تھا لیکن سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں اس کے مضبوط اتحادی متحدہ عرب امارات نے بھارت کے خلاف کسی طرح کا سخت بیان نہ دیا جس سے پاکستان کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔
ماضی میں بھی خلیجی ریاستوں نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ متوازن تعلقات رکھے تھے لیکن حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے کہ خلیجی ممالک پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اس بات کا واضح ثبوت 2019 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا جنوبی ایشیا کا دورہ تھا۔ سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے کے فوری بعد اچانک بھارت پہنچ گئے اور وہاں ایک بہت بڑی سعودی سرمایہ کاری کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب نے محض 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کئے لیکن بھارت میں محمد بن سلمان نے آئندہ دو سال میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔
مارچ 2019 میں یو اے ای نے او آئی سی کے اجلاس کی صدارت کے لئے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو دعوت دے کر پاکستان کو واضح پیغام دیا کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ دوستی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے احتجاجاً او آئی سی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن یو اے ای نے اس بات کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی۔
آج سعودی عرب کئی وجوہات کی بنا پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ اس کی واضح مثال تجارتی حجم سے سامنے آتی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی حجم محض 3.6 ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت کے ساتھ اس کی سالانہ تجارت 30 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
اب چونکہ سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل کی تجارت سے نکال کر دیگر شعبوں میں ترقی کرنا چاہتا ہے ایسے میں اسے ایک بڑی منڈی کی تلاش ہے جو بھارت کی صورت میں اسے حاصل ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی بارہا درخواستوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کا جھکاوٗ ملائشیا اور ترکی کی طرف ہے۔ یہ بات سعودی عرب کو قطعاً پسند نہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک مسلم دنیا میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔
گذشتہ سال دسمبر میں پاکستان نے سعودی عرب کے دباوٗ میں ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی طرف سے بلائی گئی کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ سعودی عرب اس کانفرنس کو او آئی سی کے لئے ایک خطرہ قرار دیتا ہے۔
پاکستان کی عدم شرکت پر اسے شدید دباوٗ اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور یہ بات کہی جانے لگی کہ پاکستان کب تک عرب ممالک کے نرغے میں رہے گا۔
پاکستان کی سفارتی کوششوں سے سعودی عرب اب پاکستان کو ایک اتحادی کے بجائے اپنا حریف سمجھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی کشمیر پالیسی کی حمایت نہیں کر رہا ہے۔
اب جبکہ پاکستان دیکھ رہا ہے کہ سعودی عرب بھارت کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کر رہا ہے ایسے میں پاکستان کا سعودی عرب پر انحصار بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران کو حال ہی میں ایک بیان جاری کرنا پڑا جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے خلیج کی تمام باتیں افواہیں ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں حالیہ جو تبدیلیاں آ رہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں مزید اتار چڑھاوٗ آئے گا۔
سعودی عرب بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے اور پاکستان کی کشمیر پر حمایت کی درخواست پر فی الحال سعودی عرب کوئی اہمیت نہیں دے رہا ہے۔