turky-urdu-logo

ہمارا اصل خزانہ

تحریر: کامران رفیع

پوری اسلامی دینا میں یہ اضطراب عمومی طور پر پایا جاتا ہے کہ دنیا کے قدرتی وسائل کا ایک بڑا حصہ ہمارے ملکوں میں پایا جاتا ہے مگر پھر بھی اکثریت غربت کی زندگی گزارتی ہے۔ اقوام عالم میں ہماری آرا کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ایک رائے یہ بھی ہے کہ مغرب ہمارے وسائل کو”چراتا” ہے اور استحصال کرتا ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے۔ مگر اسکا دوسرا پہلو یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ وہ ایسا باآسانی کیسے کر پاتے ہیں؟

آپ اکثر یہ سنتے ہیں کہ پاکستان کے پاس کوئلے کادنیا بھر کا بیسواں بڑا ذخیرہ ہے پھر یہ دعوی بھی اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سونے کا پانچواں بڑا ذخیرہ ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے اسی طرح پاکستانی بجا طور پر اپنے دنیا کے طویل ترین نہری نظام پر فخر کرسکتے ہیں۔ قومی رہنما تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت کی کچی پکی خوشخبریاں سناتے رہتے ہیں ۔اس سب کے باوجود یہ خزانے ناقابل استعمال ہی رہ جاتے ہیں یا پھر "وہ” آتے ہیں خزانہ نکالتے ہیں اور ہمیں تھوڑی بہت ‘مزدوری’ تھما کر چلے جاتے ہیں۔

 اسکی ایک بنیادی وجہ یہ ہےکہ ہم اپنے سب سے بڑے خزانے کو درست طریقہ سے استعمال ہی نہیں کرپاتے اور وہ ہے انسانی وسائل کی تنظیم و ترقی۔ یہ ایک خزانہ ایسا  ہے جس کی پوری دنیا میں ڈیمانڈ بھی ہے اور اسلامی دنیا کے پاس بالعموم اور  پاکستان کے پاس بالخصوص اسکا بھرپور پوٹینشل موجود ہے ۔  مگر عجیب بات یہ ہے کہ اس کا تذکرہ کم ہی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس اسوقت دنیا کی نویں بڑی ورک فورس موجود ہے ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چھ کروڑاٹھتیس لاکھ افراد بنتے ہیں جو کم و بیش پرطانیہ کی کل آبادی کے برابر ہے ۔اب طرفہ تماشہ دیکھیے کہ برطانیہ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے اور پاکستان   154 ویں معیشت ہے ۔

چلیں مایوسی کی کوئ بات نہیں ہم اسلامی دنیا ہی سے ایک موازنہ پیش کرتے ہیں کہ کیسے تمام تر مشکلات اور استعماری چالوں کے باوجود  انسانی اور قدرتی  وساٰئل کا بہتر استعمال اقوام عالم میں ہمارا وزن بڑھا سکتا ہے ۔ پاکستان نے گذشتہ سال  6 بلین ڈالر کی سروسز ایکسپورٹ کیں ۔ جبکہ ترکی نے اس دورانیہ میں 53.7بلین ڈالر کی سروسز ایکسپورٹ کیں یعنی پاکستان سے تقریبا 9گنا زیادہ!۔ تو ترکی نے یہ  9 گنا زیادہ سروسز کتنی ورک فورس کے ساتھ ایکسپورٹ کیں؟  

ترکی کے سروس انڈسٹری سے وابسطہ افراد کار کی تعداد قریبا  1 کروڑ دس لاکھ ہے  جبکہ پاکستان میں سروس انڈ سٹری میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد قریبا  دوکروڑ 28 لاکھ ہے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں سروس انڈسٹری میں کام کرنے والا  ایک فرد اوسط سالانہ 222 ڈالر کی ایکسپورٹ سروسز پیدا کرتا ہے جبکہ ترکی میں ایک فرد  اوسط 3117 ڈالر  سے زیادہ کی ایکسپورٹ سروسز پیدا کرتا ہے ۔اس کا سیدھا  مطلب یہ ہے کہ ترکی کی سروس انڈسٹری میں کام کرنے والے ایک فرد کی پیداواری صلاحیت پاکستانی فرد سے اوسط  14 گنا زیادہ ہے۔

   1990 میں پاکستان   1.4 ارب ڈالر کی سروسز ایکسپورٹ کررہا تھا جبکہ اسی سال ترکی 8 ارب ڈلر کی سروسز ایکسپورٹ کررہا تھا اسوقت ترکی پاکستان سے پانچ گنا آگے تھا مگر آج ترکی 8 گنا آگے ہے اسکا ایک مطلب یہ ہے کہ ترکی نے اپنے افراد کی استعداد کار میں واضح اضافہ کیا ہے ۔ پاکستان اس ضمن میں اپنے بھائ ترکی سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے کیونکہ تہذیبی اور دلی قربت بخود استعداد کو مہمیز بخشتی ہے اور قائد کے اس فرمان کہ ایمان اتحاد اور تنظیم کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

مسلمان عوام میں اپنے وسائل کے حوالے سے جو اضطراب پایا جاتا ہے اس اضطراب کو ایک مثبت اور عملی جہت دینے کی ضرورت ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ  وسطی ایشائ ریاستوں، ترکی ایران اور پاکستان کے درمیان  بالخصوص پیشہ وارانہ تربیت اور سیکھنے سکھانے کے عمل کو عوامی سطح پر پھیلایا جائے ۔ مسلسل تربیت اور باہمی تعاون ہی سے یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے خزانوں کو نکال سکیں اپنے وساٰئل پر اپنا اختیاربحال کرسکیں اور دنیا میں اپنا وقار واپس حاصل کرسکیں

کامران رفیع

”ماضی شان حال“ کے طالبعلم کے طور پر یہ مطالعہ کرتے رہتے ہیں کہ کاشغر سے مراکش اور ملایا سے کوہ قاف تک پھیلے سنہری ماضی کو شاندار مستقبل میں کیسے منعکس کیا جا سکتا ہے ۔ ایسوسی ایشن فار اکیڈیمک کوالٹی (آفاق) سے بطور ہیڈ آف  کوالٹی کمپلائنس اینڈ آڈٹ وابسطہ ہیں ۔لاہور میں سکونت پزیر ہیں ۔


ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
Kamran.rafi@turkeyurdu.com

Read Previous

ترکش کارگو جہاز کی مانگ میں اضافہ

Read Next

سعودی عرب: دنیا کی مہنگی ترین گھڑ دوڑ، جیتنے والے کو 2 کروڑ ڈالر کا انعام

Leave a Reply