مودی کی مسلمان اور کشمیر دشمن پالیسیاں کهل کر سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں مودی حکومت نے کشمیریوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے۔
ایک طرف کشمیریوں کو نئی سرکاری ملازمتیں نہیں دی جا رہیں تو دوسری طرف موجودہ سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا جا رہا ہے۔
جموں کشمیر حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق وادی میں تعینات 24 اعلیٰ سرکاری ملازمین یعنی سیکریٹری کے 24 عہدوں پر مسلمان سیکریٹریوں کی تعداد محض پانچ رہ گئی ہے۔
مسلم اکثریتی آبادی کے اس خطے میں حکومت مشینری چلانے کیلئے 58 ٹاپ آفیسرز میں سے صرف 12 مسلمان ہیں۔
شاہ فیصل جو مقبوضہ وادی میں ایک اعلیٰ سرکاری ملازم تھے انہوں نے دو سال قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ مودی حکومت نے انہیں بلا وجہ دس ماہ تک سیفٹی ایکٹ کے تحت زیر حراست رکھا اور ان کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں کیا گیا۔
مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ ہے جو مجموعی آبادی کا 68 فیصد ہے۔ وادی میں ہندووں کی آبادی 28 فیصد ہے۔ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کے مجموعی ساڑھے پانچ سو ملازمین میں سے مسلمان سرکاری ملازمین کی تعداد دو سو سے بھی کم ہے۔
وادی کے اعلیٰ پولیس افسران میں صرف سات مسلمان پولیس آفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ ایس پی اور ڈی ایس پی عہدے کے مسلمان پولیس آفیسرز کی تعداد محض 108 ہے۔
حال ہی میں مقبوضہ وادی کے گورنر لیفٹننٹ جنرل گریش چندرہ کی ٹاپ بیوروکریٹس کے ساتھ ایک گروپ فوٹو جاری کی گئی جس میں 19 آفیسرز میں صرف ایک مسلمان آفیسر موجود تھا۔