
رپورٹ: شبیر احمد
محبت سرحدوں کی قیدی نہیں ہوتی، یہ اس سے ماوراء آفاقی ہوا کرتی ہے ۔یہ جب اپنے پہ آتی ہے تو ذات، پات، رنگ، نسل ، وطنیت اور قومیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دل کے نہاں خانوں کو مزین کردیتی ہے۔آج سے کوئی بیس سال پہلے جب کابل، جلال آباد، قندہار اور مزار شریف سے زبردست دھماکوں کی لرزا دینے والی آوازیں فضامیں گونجنے لگیں، تو خوف کے عالم میں لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان نے اپنے وسیع تر دامن میں انہیں جگہ دے کر مواخات کی وہ سنت تازہ کردی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
چالیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو 4 دہائیوں تک پناہ دینے کے بعد یہ سوال مسلسل زور پکڑنے لگا کہ پاکستان نے افغان عوام کو اپنا گرویدہ کیوں نہیں بنایا اور وہ پاکستانی عوام سے نفرت کا ایک انبار لیے کیوں پھرتے ہیں؟آج بھی پاکستان میں یہ تاثر شدت کے ساتھ موجود ہے کہ افغان پاکستانی عوام سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ لوگ اکثر اوقات یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ ہماری مہمان نوازی اور برسوں کی قربانیوں کا کیا صلہ ملا؟
اگرچہ ،روز اول سے حکومتی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات وقتا فوقتا تناؤ کا شکار رہے، مگر دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر محبت کا دیا روشن رہا۔اس حوالے سے جب ہم نے افغانستان میں مقیم زیر تعلیم طلبہ کے نمائندوں سے بات کی تو انہوں نے اس تاثرکو بے بنیاد اور حقیقت کے برعکس قرار دیا ۔
کسی قوم کے ثقافتی اقدار جاننے اور جانچنے کے علاوہ اس کے بارے میں قائم تمام تر تصورات قیاس آرائیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔چار سالوں سے افغانستان میں زیر تعلیم شہزادہ مسعود بتاتے ہیں کہ ‘جب میں نے افغانستان کے لیے رخت سفر باندھا تو ذہن منفی خیالات اور تصورات سے لبریز تھا،تاہم جیسے ہی طور خم سرحد عبور کی تو پہلے سے ذہن میں موجود خاکہ یک مشت مٹ گیا اور میں ایک نئے محبت اور الفت کے گھرانے میں قدم رکھ چکا تھا’۔
شہزادہ مسعود نے ترکیہ اردو کو بتایا کہ ‘جامعہ شیخ زید خوست میں اساتذہ نے ہمارے ساتھ عقیدت کی وہ مثال قائم کردی ہے کہ باقی طلبہ گلہ مند نظر آتے ہیں ۔ جامعات کے اساتذہ سے لے کر سڑک پر موجود ریڑھی بان تک ، سب سراپا محبت کے نمونے بن کر ابھرتے ہیں۔ ریڑھی بان سے کوئی چیز خریدنے جاؤں توپاکستان سے تعلق ہونے کی بناء پر پیسے لینے سے انکار کرتا نظر آتا ہے’۔
ایک مشہور مقولہ ہے کہ پہلا تاثر ہی دیرپا اور آخری تاثر ہوتا ہے۔ پاکستانی طلبہ نے افغانستان میں جس عقیدت کی منظر کشی کی ہے وہ لازوال اور مثالی ہے۔ افغانستان میں میڈیکل کے طالب علم انضمام احمد بتاتے ہیں کہ ‘پہلے پہل میں افغانستان جانے سے انکاری تھا۔ بھائی کو خبردار بھی کردیا تھا کہ میں وہاں نہیں جانا چاہتا۔بھائی کے پرزور اصرار کے بعد جب افغان سرزمین پر قدم رکھے، تو ایک نئی دنیا میری منتظر تھی’۔
انضمام نے اپنے ساتھ ہونے والےایک غیر معمولی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب ہم پہلی بار داخلہ امتحان دینے کے بعد افغانستان سے واپس آرہے تھے تو طور خم سرحد ایمرجنسی بنیادوں پر بند ہوئی۔ رات کے سات بج رہے تھے اور ہم اجنبی بے یار و مددگار کسی مسیحا کے منتظر تھے۔ اچانک کسٹم شعبے کا ایک افسر نمودار ہوا جو ہمیں اپنے ساتھ دفتر لے گیا، اور ہمارے لیے رات کے کھانے اور قیام کا اہتمام بھی کیا ۔ اگلی صبح جب ہم نے جلال آباد جانے کا ارادہ کیا ، تو کسٹم افسر نے رخصتی کی اجازت نہیں دی اور اپنے ساتھ گاؤں لے گئے، جہاں ہم نے دریائے کابل کی سیر کی اور ان کے گھر رات کا قیام کیا۔ سرحد کھلنے کے بعد کسٹم افسر ہمیں اپنی گاڑی میں سرحد تک خودچھوڑ کر چلے گئے’۔
اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جامعہ سپین غر جلال آبادمیں پاکستانی طلبہ کے نمائندے انوار الحق کہتے ہیں کہ’افغان عوام ہمارے بارے میں کسی نہ کسی سطح پر منفی خیالات کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم جب ہم رو برو ہوئے تو ان خیالات کی بنیادیں کمزور پڑگئی اور ہمیں اب یہ تک محسوس نہیں ہوتا کہ ہم دیار غیر میں زندگی بسر کر رہے ہیں’۔
‘آپ یقین کرے کہ افغانیوں کو جب اس بات کا علم ہوجائے کہ مخاطب پاکستانی ہے تو ریڑھی بان اور دکان دار سے لے کر حکام تک سب مفت اشیاء کی پیشکش شروع کردیتے ہیں۔حال ہی میں ہمیں ٹرانسکرپٹ کا مسئلہ درپیش ہواتو اس بابت میں ہم نے والئ جلال آباد کے ہاں درخواست کی ۔ محض پاکستانی ہونے کی وجہ سے انہوں نے فوری طور پر رئیس جامعہ کو احکامات ارسال کیے’۔
عید کے موقع پر طالب علم گھروں سے دور عجب احساس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تعلیم اور مسافت سے مجبور ہوکر فقط اپنوں کی یاد سے دلوں کو بہلاتے ہیں، لیکن افغانستان میں مقیم پاکستانی طالب علم اس سے باالکل مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
شہزادہ مسعود کہتے ہیں کہ ‘عید کے موقع پر ہمیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم اپنے گھروں سے دور ہیں۔دوست و احباب، علاقے کے عوام اور جامعہ کی انتظامیہ ہمارے لیے بھرپور دعوتوں اور عشائیوں کا اہتمام کرتی ہیں۔رواں سال عید کے موقع پر ہمارے فیکلٹی ڈین نے ہمیں اپنے گھر مدعو کرکے کھانے کا اہتمام کیا۔ دوستوں نے تو خصوصی سفری انتظامات کے ساتھ ہماری مہمان نوازی کی۔ عید کے تین روز ہم اتنے مصروف رہیں کہ مزید دعوتوں کو ٹکرانے کے سواء ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہا’۔
شہزادہ مسعود نے مزید کہا کہ ‘امتحان کی وجہ سے ہم رواں سال عید کے موقع پر گھر نہیں جا سکے۔ خوست کے لوگوں کو جیسے ہی اس بات کی اطلاع ملی تو انہوں نے خوست انجمن نوجوانان کے توسط سے ہمارےلیے عید کے تینوں روز دو دو بکروں کی قربانی کا انتظام کیا، جبکہ مقامی لوگوں کی طرف سے بذات خود ایک گائے کی قربانی بھی کی گئی۔بعد ازاں یہ گوشت ہمارے درمیان تقسیم ہوا جس سے ہم خوب محظوظ ہوئے’۔
‘خوست کے مقامی مشران بشر دوست اور وفادار نے تو خلوص اور اپنائیت میں اپنا کوئی ثانی نہیں چھوڑا۔ عید کے موقع پر قربانی کے جانور عطیہ کرنے کے بعد پاکستانی طلبہ کے سامنے یہ پیشکش بھی رکھی گئی کہ آئیں ، ہم آپ کو افغانستان کے خوبصورت مقامات کی سیر بھی کروائیں’۔
دنیا بھر میں خواہ جو بات بھی مشہور ہولیکن یہ بات یقینی ہے کہ افغان پاکستانی طلبہ کو پیار و محبت سے اپنا گرویدہ بنا چکے ہیں۔انوارلحق نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کہ’ ہمارے ویزےاکثر ایکسپائر ہوجاتے ہیں ، تاہم ہماری شناخت جاننے کے بعد ہمیں سہولت میسر آجاتی ہے۔آج سے کچھ روز قبل ہمارے کچھ ساتھی فارغ التحصیل ہوئےتو اس موقع پر افغان دوستوں نے ہمارے لیے آوٹ ڈورلنچ کا اہتمام کیااور خوب عزت افزائی دی’۔
اسی سے ملتا جلتا اظہار خیال کرتے ہوئے انضمام احمد کہنے لگےکہ ‘ایک بار ٹریک سوٹ خریدنے کے سلسلے میں بازار جانا ہوا تو دکان دار قیمت کم کرنے پر نہیں آرہا تھا۔اگلے ہی لمحے اسے علم ہوا کہ ہم پاکستانی ہے تو پھر پیسے تک لینے سے انکار کر رہا تھا۔اسی طرح معمول کی بنیاد پر جم جاتا ہوں ، جم میں میری فیس باقیوں کی بنسبت کافی کم ہے ، حتی کہ بعض اوقات مہینہ گزرنے کے بعد فیس کا مطالبہ بھی نہیں کیا جاتا’۔
افغان وزارت برائے اعلی تعلیم کے ترجمان ضیاء اللہ ہاشمی نے ترکیہ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے شعبے میں اب تک ہم نے طلباء کے مابین قومیت کے لحاظ سے تفریق نہیں کیا۔وہ تمام سہولیات جو افغان طلباء کو حاصل ہیں، پاکستانی طلباء کو بھی میسر ہے۔
‘اسلام کے رشتے سے ہم دونوں ممالک ایک ہیں۔ یہاں جب کسی پاکستانی طالب علم کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، ہم اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تعلیم سے وابستہ ہر ادارے کے دروازے پاکستانی طلبہ کے لیے کھلے ہیں’۔