
آج کا دن کشمیر کی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ 27 اکتوبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں کشمیری عوام بطور سیاہ دن اور احتجاج مناتے ہیں۔ پاکستانی قوم بھی کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اس احتجاج میں شامل ہے
ہندوستان کی تقسیم کے وقت آزاد ریاستوں کے لیے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا ایک فارمولہ طے کیا گیا، جو آبادی کی اکثریت کے تحت الحاق کا فیصلہ کرنے کا اختیار تھا، چونکہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 77 فیصد تھی اس لیےکشمیریوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دیا جانا تھا لیکن اس وقت کشمیر کاگورنر نہرو جو خود بھی کشمیری تھا اس نے یہ فارمولہ تسلیم نہیں کیا اور مسلمان کشمیریوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق کو دبانے کی کوشش کی گئی
اس مقصد کے لیے ڈوگرہ فوج اور آر ایس ایس کے عسکریت پسندوں نے جموں پر حملہ کیا اور وہاں قتل عام شروع کیا جس میں ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا، یہ خبر ملتے ہی مختلف پشتون قبائلی رضا کار مسلمان کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے 22 اکتوبر کو کشمیر پہنچے اور کشمیری رضاکاروں کے ساتھ شامل ہو گئے
یہ خبر ملتے ہی ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ مقابلے کی جرات نہ کر سکا اور فرار ہو کر بھارت سرکار کے پاس پہنچا، بھارتی حکومت نے ہری سنگھ سے ایک نام نہاد معاہدہ پر دستخط کرائے جس کے مطابق اس نے بھارتکے ساتھ الحاق کیا۔
یہ معاہدہ سراسر غیر اخلاقی،غیر سیاسی اور جعلی تھا کیونکہ ہری سنگھ فرار ہو چکا تھا، کشمیر میں نہ تو اس کی فوج باقی رہ گئی تھی نہ اس کی عملداری تھی، ہری سنگھ کے فرار کا سن کر اس کے فوجی یا تو فرار ہو گئے تھے یا مارے گئے تھے اور ایک وسیع علاقہ پر پشتون اور کشمیری رضاکاروں کا قبضہ ہو چکا تھا۔
27 اکتوبر 1947کو بھارتی فوج سرینگر پہنچ گئی لیکن جس علاقہ پر قبضہ ہو چکا تھا اس کی طرف بڑھنے کی جرات نہ کر سکی، ہری سنگھ سے آزاد کردہ علاقے کا نام آزاد جموں و کشمیر رکھا گیا جو آج تک بطور آزاد ریاست قائم ہے اس علاقے کے کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ گلگت بلتستان کے عوام نے شروع میں ہی پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں پاکستان کا پرچم لہرایا تھا، پاکستان نے آزاد کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر حقوق دیے، آزاد کشمیر پاکستان کا فرنٹ لائن ہے جبکہ بھارت کے غاصبانہ اور جابرانہ قبضہ کے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود کشمیری عوام بھارت کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔