تحریر: کامران رفیع
یہ پیار اتنا ہی پرانا ہے جتنی اس خطے کی تاریخ ۔ زبان زمین، تاریخ اور دین کے رشتوں میں جڑے ان ممالک کے لوگ اپنے لاشعور ہی میں ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں ۔ لاشعور میں چھپی اس محبت نے حال ہی میں دوبارہ شعوری انگڑائ لی ہے اور اس شعور کا مجسم اظہار عنقریب استنبول-تہران-اسلام آباد ریلوے سروس کی شکل میں ہوگا
آئی ٹی آئی کیا ہے ؟
یہ 6،500 کلومیٹر طویل ریل سروس ہوگی جو اسلام آباد سے تہران اورپھر استنبول جاے گی۔ ابتدائ طور پر یہ کارگو مقاصد کے لیے چلے گی اور پھر مسافروں کے لیے بھی دستیاب ہوگی۔ اس کا سب سے زیادہ سفر ایران میں گزرے گا جو کہ 2570 کلومیٹر پر مشتمل پے ای ٹی ائ منصوبہ کا آغاز 2009 میں ہوا اور کچھ تعطل کے بعد تینوں ممالک نے اسے بحال کرنے اور پہلے سے بہتر انداز میں چلانے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ منصوبہ ای سی او یعنی اقتصادی تعاون کی تنظیم کے تحت کیا جارہا ہے ۔
ای سی او (ECO)دس ممالک پر مشتمل اقتصادی تعاون کی ایک تنظیم ہے۔ یہ دس ممالک 483ملین کی آبادی اپنے اندر سموے ہوے ہیں جو دنیا کی آبادی کا تقریبا 6 فیصد بنتا ہے ۔ خوش قسمتی سے یہ تمام ممالک نہ صرف ایک بڑا جغرافیائ خطہ ہیں جن کا آپس میں زمینی رابطہ ممکن ہے بلکہ یہ سب مختلف طرح کے قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال بھی ہیں۔ انکی موجودہ مجموعی نامینل جی ڈی پی تقریبا 2 ٹرلین ڈالر ہے۔اس طرح مجموعی طور پر یہ دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں جگہ بنا سکتی ہے ۔
تاہم ابھی تو سفر کا آغاز ہی ہوا ہے۔ پاکستان اور ترکی کا تجارتی حجم 800 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ پاکستان ایران کا تجارتی حجم لگ بھگ 360 ملین ہے ترکی ایران تجارتی حجم 1 بلین ڈالرز کے قریب قریب رہتا ہے . یعنی تینوں ممالک کے درمیان کل ملا کر تقریبا 2 بلین ڈالر کی تجارت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی کم ہے۔ آپ اسکا موازنہ صرف دو قریبی ہمسایہ ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش سے کیجے۔ انڈیا بنگلہ دیش کا باہمی تجارتی حجم 10 بلین کے لگ بھگ ہے ۔ یعنی پاکستان ایران ترکی کی باہمی تجارت سے پانچ گناہ زیادہ ۔ ایسے میں ایران چین 400 بلین ڈالر ڈیل اور سی پیک تناظر میں آئ ٹی آی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ چین پاکستان میں پہلے ہی 64 بلین دالرز انویسٹ کرچکا ہے ۔ یعنی آئ ٹی آی پراجیکٹ صحیح معنوں میں سلک روٹ بن سکتا ہے جو چین کو مختصر اور تیز ترین ذریعے سے یورپ اور مشرق وسطی سے مربوط کردے گا ۔
دوسری طرف استارہ ۔راست ۔قزوین ٹرین کے ذریعے پہلے ہی ایران کو آذربایٰیجان اور روس سے مربوط کرنے کے منصوبہ پر کام جاری ہے اور 2021 میں اس کا باقایٰدہ آغاز متوقع ہے ۔ یاد رہے 2018 میں اس ٹرین کے مشکل ترین مرحلے پر کام مکمل ہو چکا ہے جسے انجینرنگ کا ایک شاہکار قرار دیا گیا ۔ پاکستانی وفد نے بھی اس کے افتتاح میں شرکت کی تھی ۔
ایسے میں آی ٹی آئ ٹرین کا چلنا انتہا ی خوش آئند خبر ہے ۔ ان ممالک کو اس ضمن میں مزید ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے۔ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ترکی اور ایران نےستمبر 2020 میں باہمی تجارت کا ہدف 30 بلین ڈالرز طے کیا ہے .جبکہ 2015 سے پاکستان اور ترکی کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ پر گفت و شنید جاری ہے جس میں 2022 کے لیے باہمی تجارت کا ہدف 10 بلین ڈالر تجویز کیا گیا تھا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاہدے کو حتمی شکل دے ڈالی جائے اور صدیوں پرانے اس پیار کو امر کردیا جاےٗ۔
”ماضی شان حال“ کے طالبعلم کے طور پر یہ مطالعہ کرتے رہتے ہیں کہ کاشغر سے مراکش اور ملایا سے کوہ قاف تک پھیلے سنہری ماضی کو شاندار مستقبل میں کیسے منعکس کیا جا سکتا ہے ۔ ایسوسی ایشن فار اکیڈیمک کوالٹی (آفاق) سے بطور ہیڈ آف کوالٹی کمپلائنس اینڈ آڈٹ وابسطہ ہیں ۔لاہور میں سکونت پزیر ہیں ۔
ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
Kamran.rafi@turkeyurdu.com