
وزیر خارجہ چاوش اوغلو نے امریکی ہم منصب کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور ایف-16 کے بارے میں ترکیہ کی توقعات کو کھُلے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "ترکیہ کی ایف۔16 کی خرید کے لئے دو ممالک ‘سویڈن اور فن لینڈ” کی نیٹو رکنیت کی شرط نہیں رکھی جانی چاہیے۔ یہ منصفانہ اقدام نہیں ہے۔ دونوں موضوع ایک دوسرے سے مختلف ہیں، دونوں اپنے سے مخصوص شرائط کے اور اپنی بنیادوں پر جاری مذاکرات کے حامل ہیں۔ دونوں موضوعات کے اپنے اپنے میمورینڈم ہیں۔ ان دونوں معاملات کو ایک دوسرے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔
اگر یہ شرط ہم پر مسلط کی گئی تو ہمارا ایف-16 حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت پابند نہ کیا جائے۔ بحیثیت ترکیہ اور امریکی انتظامیہ اس معاملے میں مشترکہ موقف کا اظہار کرنا میرے خیال میں نہایت اہمیت کا حامل ہو گا”۔
چاوش اوغلو نے کہا ہے کہ ایف۔16 کی فراہمی سے متعلق ہماری طلب کو پورا کیا جانا نہ صرف ہمارے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بلکہ نیٹو کی دفاعی قابلیت کے حوالے سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے شام میں امریکی وعدوں کی یاد دہانی کروائی اور کہا ہے کہ PKK/YPG کی طرح داعش کے ساتھ بھی تعاون درست فعل نہیں ہے۔
روس کے بارے میں بات کرتے ہوئے چاوش اوغلو نے کہا ہے کہ ہم نے براستہ ترکیہ، امریکہ اور یورپی یونین کی روس پر عائد کردہ، پابندیوں میں شگاف ڈالنے کی، پابندیوں کو بائے پاس کرنے کی نہ تو اب تک اجازت دی ہے اور نہ ہی دیں گے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ بقول صدر جو بائیڈن کے بھی ترکیہ اور نیٹو کے مشترکہ آپریشنز کی اہلیت ہمارے لئے ہمیشہ اہم رہی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "ترکیہ کو ایف۔16 کی فراہمی کے لئے بائڈن انتظامیہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم، ترکیہ کے دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں جائز تحفظات کو سمجھ رہے ہیں”۔