turky-urdu-logo

استنبول: افریقی کمیونٹیز کو روزمرہ کے اخراجات کے حصول میں مشکلات

Community

کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہے وہیں تُرکی میں بھی معیشت سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ ان حالات میں استنبول کے مضافاتی علاقوں میں رہنے والی افریقن کمیونٹی کو اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق استنبول کے نواحی علاقوں میں رہنے والے افریقی تارکین وطن شدید معاشی اور مالی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ سیرا لیون سے علی باری کا کہنا ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے دنیا بھر میں مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ استنبول میں رہنے والی افریقن کمیونٹی اس وقت مالی بحران کا شکار ہے۔ گھر کے کرائے ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں اور پیسہ کمانے کے تمام ذرائع لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔ 17 سال کے علی باری پچھلے ایک سال سے ترکی میں رہ رہے ہیں۔ استنبول آنے سے پہلے علی باری اپنے والدین کے ساتھ ایران میں رہتے تھے۔ والدین کے انتقال کے بعد ایک ایرانی شخص نے علی باری کو تعلیم جاری رکھنے اور نوکری کا دلاسہ دیا تھا۔ ایران میں وہ ڈیڑھ سال تک ایک بیگار کیمپ میں انتہائی کم اجرت پر کام کرتے رہے اور موقع پاتے ہی وہاں سے بھاگ نکلے۔ کچھ افغان دوستوں کی مدد سے وہ تُرکی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ استنبول میں ان کا رابطہ ان کے آبائی ملک سیرا لیون کے شہریوں سے ہوا۔ ٹی آر ٹی ورلڈ سے بات کرتے ہوئے علی باری نے کہا کہ ان کی کہانی بہت دردناک ہے۔ اب وہ استنبول میں ایک نوکری کی تلاش میں ہیں جس سے انہیں معقول آمدنی ملے اور وہ کسی مناسب جگہ پر رہیں۔ وہ تُرکی میں قانونی طور پر ایک مہاجر کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔ علی باری جیسے لوگوں کی مدد کیلئے ایک مقامی تنظیم ترلابسی سولیڈیریٹی گروپ کام کر رہی ہے جو حال ہی میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے نوکریوں سے فارغ ہونے والے افراد کو کھانے پینے کا سامان فراہم کر رہی ہے۔ جمعہ کی رات سے پورے ملک میں تین روز کیلئے کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔ ترلابسی گروپ کی کوشش ہے کہ کرفیو سے پہلے مستحق افراد میں راشن کی تقسیم کا کام مکمل کر لیا جائے۔ گروپ سب سے زیادہ افریقن کمیونٹی کے افراد کی مدد کر رہا ہے تاکہ کرفیو کے دوران لوگوں کو کم سے کم کھانے پینے کی اشیا دستیاب ہوں۔ ترلابسی سولیڈیریٹی گروپ دس سال پہلے قائم کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر اس امدادی تنظیم نے استنبول کے مضافات میں رہنے والی افریقن کمیونٹی کی مدد کی تاہم اب گروپ ملک بھر میں پھیل چکا ہے اور غرباء میں اشیائے خورد و نوش کی تقسیم کا کام کر رہا ہے۔ گروپ میں کام کرنے والے دو رضاکار کارکن یاسر بدر اور صدیق یاسر اپنی گاڑی میں فیس ماسک، ہینڈ سینیٹائزر، پلاسٹ گلوز اور تیار کھانوں کے پیکٹس بھر کر ضرورت مند افراد کے گھروں تک پہنچا رہے ہیں۔ صدیق یاسر افریقن کمیونٹی کے سرکردہ لوگوں سے ملاقات کر کے ضرورت مند لوگوں کی فہرست تیار کر رہے ہیں۔ اس وقت افریقن کمیونٹی ہیلتھ انشورنس سے محروم ہے۔ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار ہو کر گھر پر بے کار بیٹھے ہیں۔ امدادی گروپ افریقن کمیونٹی کے لوگوں کو ڈاکٹر تک رسائی دے رہے ہیں۔ کئی ڈاکٹرز ترلابسی گروپ سے وابستہ ہیں۔ امدادی گروپ استنبول کے مضافاتی علاقے میں 300 افراد کو راشن تقسیم کر رہا ہے جن کا تعلق سیرا لیون کمیونٹی سے ہے۔

Read Previous

تمام شہریوں کو کورونا وائرس کے مفت علاج کی سہولت دستیاب ہے، تُرک وزارت صحت

Read Next

آئی ایم ایف کا اہم اجلاس، پاکستان کو ایک ارب 40 کروڑ ڈالر امداد دینے کا فیصلہ

Leave a Reply