اسرائیل کی ایک عدالت نے فلسطین کے مزاحمتی رہنما شیخ راعد صالح کی قید تنہائی کی مدت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔
شیخ راعد پہلے سے ہی گذشتہ چھ ماہ سے قید تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ عدالت نے اس سزا میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی۔
شیخ راعد کے وکیل خالد زبرقہ نے بتایا کہ اسرائیلی قوانین میں قید تنہائی کو کم سے کم رکھنے کی پابندی ہے لیکن شیخ راعد کے کیس میں اسرائیل اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
شیخ صالح اسلامک موومنٹ کی شمالی برانچ کے سربراہ ہیں۔ انہیں اسرائیل نے اگست 2017 میں گرفتار کیا تھا۔ شیخ راعد نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں کھڑے ہو کر فسلطینیوں پر میٹل ڈیٹیکٹرز سے بجلی کے جھٹکے دینے کے اقدامات پر سخت تنقید کی تھی۔
اسرائیلی عدالت نے انہیں 28 ماہ قید کی سزا کا حکم دیا تھا جس میں سے نصف سزا قید تنہائی میں گزاری۔ بعد ازاں انہیں گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔
گھر میں دو سال نظربند رہنے کے بعد اسرائیل نے انہیں جیل میں دوبارہ منتقل کر دیا تھا۔
شیخ راعد کے وکیل نے کہا کہ آج کی عدالتی کارروائی محض دکھاوا تھی۔ عدالت نے وہی فیصلہ دیا جو اسرائیل کی حکومت نے ڈکٹیٹ کروایا تھا۔ عدالت نے الزام کی صحت پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی قید تنہائی سے شیخ راعد کی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کو ملحوظ خاطر رکھا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل شیخ راعد کو صرف ان کے نظریات اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر سزا دے رہا ہے۔
شیخ راعد 1958 میں پیدا ہوئے۔ آٹھ بچوں کے باپ شیخ راعد ایک شاعر ہیں اور وہ اسرائیل کے عرب شہر ام الفہم کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔
قابض اسرائیل کی پالیسیوں پر سخت تنقید اور اسرائیل کی عرب آبادی میں ان کی مقبولیت کے بعد انہیں کئی بار گرفتار کیا گیا۔
شیخ راعد کو 2003 میں حماس کو فنڈنگ فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ دو سال بعد انہیں رہا کیا گیا اور ان کے سفر پر پابندی لگا دی گئی۔
2010 میں انہیں اسرائیلی پولیس پر حملے کے الزام میں پانچ ماہ قید رکھا گیا۔ شیخ راعد کے اہل خانہ کو مہینے میں ایک بار ملنے کی اجازت تھی لیکن کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد ملاقات پر پابندی لگا دی۔ شیخ راعد گذشتہ تین سال سے اپنی 82 سالہ والدہ سے کو بھی نہیں دیکھ پائے ہیں۔ اسرائیل شیخ راعد کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے