لیبیا میں جنگجو لیبئن نیشنل آرمی کے خلیفہ ہفتار اور مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ مصر کی حکومت کو مخالف جماعتوں اور گروپوں کے ساتھ مذاکرات پر راضی کیا جائے۔
اپریل سے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڑ نے ترک فوج کی مدد سے جنگجووں سے کئی علاقے خالی کروا کر اپنا کنٹرول قائم کیا ہے اور جنگجو گروپ لیبئن نیشنل آرمی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
گذشتہ ہفتے لیبیا نے ترک فوج کی مدد سے دارالحکومت تریپولی کے نزدیک ترہونا شہر سے جنگجو خلیفہ ہفتار کی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا تھا جس کے بعد لیبیا کی آئینی و قانونی حکومت کا دارالحکومت اور اس کے ارد گرد کنٹرول مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ ترہونا کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد خلیفہ ہفتار عملی طور پر ایک شکست خوردہ کی حیثیت سے محفوظ مقامات کی طرف جا رہا ہے۔ ترہونا کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد خلیفہ ہفتار نے عالمی برادری سے مدد مانگتے ہوئے لیبیا کی آئینی اور قانونی حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ انہیں مذاکرات میں شامل کیا جائے۔
لیبیا کی حکومت نے مصر کی جنگ بندی کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ مختلف ممالک کی فوج نے اب مشرقی شہر سیرت کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے جہاں سے وہ خلیفہ ہفتار کے آئل فیلڈز پر قبضے کو ختم کرنے کیلئے آگے بڑھ رہی ہیں۔
اس سال جنوری میں باغی خلیفہ ہفتار کی ملیشیا نے دو ایکسپورٹ ٹرمینلز السہارا اور الفیل آئل فیلڈز پر قبضہ کر کے تیل کی سپلائی روک دی تھی جس کے باعث لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کو خاصا مالی نقصان پہنچا کیونکہ تیل کی فروخت سے ریونیو آنا بند ہو گیا تھا۔ تیل کی ایکسپورٹ کی بندش سے لیبیا کی حکومت کو پانچ ارب ڈالر ریونیو کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مصر، متحدہ عرب امارات، روس اور فرانس لیبیا کی باغی ملشیا لیبئن نیشنل آرمی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان ممالک نے لیبئن نیشنل آرمی پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔