سویڈن میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کے نسخے کو نذر آتش کیے جانے کےبعد صدر ایردوان نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ کبھی بھی اشتعال انگیزیوں یا دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکے گا۔
صدر ایردوان نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (آق) پارٹی کے ارکان کو بتایا کہ ہم مغرب کو یہ بات واضح کریں گے کہ مسلمانوں کی توہین سوچ کی آزادی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترکیہ اس وقت تک اپنے ردعمل کو سخت ترین انداز میں ظاہر کرتا رہےگا جب تک کہ دہشت گرد تنظیموں اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف پرعزم جنگ نہیں کی جاتی۔
صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، جو لوگ آزادیِ فکر کی آڑ میں اس کی اجازت دیتے ہیں، جو لوگ اس حرکت پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔
بدھ کے روز، ایک عراقی شہری نے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کا نسخہ جلا دیا۔
12 جون کو، سویڈن کی ایک اپیل کورٹ نے قرآن جلانے پر پابندی کو ختم کرنے کے لیے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا، اور کہا کہ پولیس کے پاس اس سال کے شروع میں قرآن جلانے کے دو مظاہروں کو روکنے کے لیے کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی۔
فروری میں، پولیس نے سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے، انتہائی دائیں بازو کے ڈنمارک کے سیاست دان راسموس پالوڈان کی جانب سے جنوری میں اسٹاک ہوم میں ترکیہ کے سفارت خانے کے باہر قرآن مجید کا ایک نسخہ جلانے کے بعد، دو قرآن جلانے کی کوششوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں، دو افراد جنہوں نے سٹاک ہوم میں عراقی اور ترکیہ کے سفارتخانوں کے باہر اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے کی کوشش کی، اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔
اپریل میں، سٹاک ہوم کی انتظامی عدالت نے فیصلہ واپس لے لیا، اور یہ فیصلہ دیا کہ حفاظتی خطرات مظاہرے کی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے ناکافی تھے۔