turky-urdu-logo

پولیس کے ہاتھوں نہتے سیاہ فام کی ہلاکت پر امریکہ بھر میں ہنگامے اور فسادات

خوبصورت قدرتی اور مصنوعی جھیلوں کے امریکی شہر مینیاپولیس میں مقامی پولیس اہلکار نے ایک سیاہ افریقن امریکن شہری جارج فلائیڈ کو گرفتاری کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد پورے امریکہ میں پولیس کے تشدد کے خلاف ہنگامے اور فسادات پھوٹ پڑے۔ اس وقت امریکہ کے تمام چھوٹے اور بڑے شہروں میں پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں عوام نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کئی جگہوں کو نذر آتش بھی کیا۔

ریاست منیسوٹا کے گورنر نے پولیس حراست میں سیاہ فام شہری کی ہلاکت کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دلخراش واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ نیویارک سے لے کر اٹلانٹا تک امریکہ میں ہر جگہ پولیس کے خلاف پُرتشدد مظاہرے جاری ہیں اور مظاہرین سفید فام پولیس کو نسل پرست قرار دے رہے ہیں۔ پولیس نے جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث پولیس اہلکار کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔  

پولیس اہلکار ڈیرک شووین نے 46 سالہ سیاہ فام جارج فلائیڈ کو گھٹنوں کے بل نیچے گرایا اور اس پر تشدد کیا جس سے فلائیڈ کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ڈیرک شووین کے ساتھ دیگر تین پولیس اہلکاروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جو اس قتل کی اس واردات میں شووین کے ساتھ تھے۔

44 سالہ پولیس اہلکار ڈیریک شووین کو پیر کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے کو انتہائی خوفناک قرار دیا۔ انہوں نے جارج فلائیڈ کے اہل خانہ سے فون پر بات کی اور کہا کہ جارج فلائیڈ کی فیملی خوفزدہ ہے۔

جارج فلائیڈ قتل کے بعد امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہریوں کے قتل کے زخم دوبارہ ہرے ہو گئے ہیں اور پورے ملک میں سیاہ فام کے ساتھ امتیازی سلوک پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں ایک بار پھر “سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہم ہے” کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں مائیکل براؤن، ایرک گارنر اور دیگر سیاہ فام پولیس کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سفید فام امریکی بھی نسل پرستانہ محرکات پر سیاہ فاموں کو قتل کر دیتے ہیں۔

پُرتشدد ہنگاموں اور فسادات کے باعث مینیاپولیس میں جمعہ اور ہفتہ کو چار گھنٹوں کیلئے دوپہر دو بجے سے شام چھ بجے تک کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔  مشتعل شہریوں نے جمعہ کو کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گھروں سے باہر آئے اور سڑک پر کھڑی کاروں کو آگ لگا دی۔ کئی مقامات پر لوگوں نے دکانوں کے شیشے توڑ کر لوٹ مار بھی کی۔

ریاست کے گورنر ٹِم والز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہر کی صورتحال کو انتہائی کشیدہ قرار دیا اور عوام سے پُرامن رہنے کا مطالبہ کیا۔

Read Previous

ترکی: یکم جون سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان

Read Next

لیرا کو سہارا دینے کیلئے تُرک سینٹرل بینک نے 44 ارب ڈالر مارکیٹ میں فروخت کئے

Leave a Reply