
فرانس میں انتہاپسندوں کی طرف سے مسلمانوں اور مساجد کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
شمالی فرانس کے ضلع ورنون میں ایک مسجد کو مختلف انتہاپسندوں کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔
دھمکی آمیز نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ "جنگ شروع ہو چکی ہے، ہم تم کو اپنے ملک سے نکال دیں گے، مسلمانوں سے سیموئیل کی موت کا بدلہ لیا جائے گا۔”
واضح رہے کہ سیموئیل پیٹی فرانس کے بوائز ڈی اورلنے کالج میں پروفیسر تھا۔ اس نے اپنی کلاس میں توہین رسالت پر مبنی خاکے طالب علموں کو دکھائے جس پر اس کی جماعت کے ایک 18 سالہ طالب علم عبداللہ انزوروو نے چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ عبداللہ کا تعلق چیچنیا سے ہے۔
مساجد اور مسلمانوں کو ملنے والے دھمکی آمیز خطوط میں خواتین کے حجاب اور اسکارف سے متعلق توہین آمیز جملے اور تصاویر بھیجی گئی ہیں۔
اس ماہ کے شروع میں فرانس کے صدر میکرون نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں اسلام بحران کا شکار ہے اور فرانس کے مسلمانوں تقسیم ہو کر علیحدہ شناخت بنا رہے ہیں۔
یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ترک صدر رجب طیب ایردوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میکرون کو دماغی علاج کی ضرورت ہے۔ میکرون کو اسلام اور مسلمانوں سے بہت زیادہ تکالیف ہیں۔