مصر میں فتویٰ جاری کرنے والے سب سے بڑے مرکز دارالافتا نے سلطنت عثمانیہ کا قسطنطنیہ پر قبضے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ اس سے پہلے دارالافتا نے اسے ایک بڑی اسلامی فتح قرار دیا تھا۔
7 جون کو دارالافتا نے اپنے سابقہ فتوے پر نظرثانی کرتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں قسطنطنیہ پر قبضے کو غیر قانونی کہا ہے۔ اس وقت قسطنطنیہ کا استنبول ہے جو ترکی کا اہم تجارتی، کاروباری اور ثقافتی شہر ہے۔
1923 تک آج کا استنبول قسطنطنیہ کے نام سے مشہور تھا۔ اس شہر کو سلطنت عثمانیہ نے 1453 عیسوی میں فتح کیا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
قسطنطنیہ پر قبضے کو غیر قانونی قرار دینے کی ایک بڑی وجہ یہاں ہیگیا صوفیا کا چرچ ہے جو بازنطینی دور حکومت میں 537 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ ہیگیا صوفیا کی 916 سال تک ایک چرچ کی حیثیت رہی جسے بعد میں سلطنت عثمانیہ نے مسجد میں تبدیل کر دیا۔
اپنے فتوے میں دارالافتا نے تُرک صدر طیب اردوان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فتوے میں کہا گیا ہے کہ تُرک صدر اپنے سیاسی مخالفین کو دبا رہے ہیں۔ وہ مذہب کو آڑ بنا کر اپنے سیاسی سفر کو کامیاب بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
دارالافتا کے نئے فتوے کے بعد مصر اور ترکی کے درمیان اختلافات مزید بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں مصر اور ترکی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ لیبیا میں تُرک حکومت اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کو سپورٹ کر رہی ہے جبکہ مصر لیبیا کی باغی ملیشیا خلیفہ ہفتار کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے کہا ہے کہ لیبیا میں ایک ریڈ لائن کھینچنے کا وقت آ گیا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مصر کا باغی ملیشیا کے سربراہ خلیفہ ہفتار کو سپورٹ کرنا اس کی آمرانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ دوسری طرف لیبیا کی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت ایک منتخب حکومت ہے۔
المونیٹر نے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ مصر کسی بھی صورت میں اپنے ہمسایہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی کامیابی نہیں چاہتا کیونکہ اس طرح مصر میں بھی جمہوریت کی واپسی کیلئے آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی جو مصری صدر عبدالفتح السیسی کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔ واضح رہے کہ عبدالفتح السیسی نے مصر کی پہلی جمہوری منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ عبدالفتح السیسی اُس وقت مصر کی فوج کے سربراہ تھے۔
دارالافتا کے فتوے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشدگی بڑھ گئی ہے۔ صدر طیب اردوان نے قسطنطنیہ پر قبضے کو ایک بہترین اسلامی فتح کہتے ہیں جس کے بعد تُرکی میں سلطنت عثمانیہ مزید مضبوط ہوئی تھی۔