سابق تُرک وزیر خارجہ یاسر یاکیش نے کہا ہے کہ لیبیا میں مصر اور ترکی کے درمیان براہ راست جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں کے ذریعے اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تُرک اخبار حریت کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یاسر یاکیش نے کہا کہ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے حال ہی میں قبائلی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے لیبیا میں مصری فوج بھیجنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اگر مصر لیبیا کے سرحد علاقوں میں فوج بھیج دیتا ہے تو اس سے ترکی اور مصر کے درمیان براہ راست جنگ کا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ یاسر یاکیش 1995 سے 1998 تک مصر میں تُرک سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس علاوہ وہ 2002 سے 2003 تک مصر کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔
یاسر یاکیش نے کہا کہ لیبیا اور مصر کے درمیان سرحد مشترکہ ہے۔ دونوں اطراف کے قبائل ایک دوسرے کے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کرتے رہتے ہیں۔ لیبیا میں مصر کی مداخلت اور فوج بھیجنے میں مشکلات نہیں ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی کوئی باقاعدہ باؤنڈری نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے قبائل ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور مصری فوج کے جانے سے لیبیا کے قبائل کی ہمدردیاں مصر کے ساتھ ہوں گی۔
سابق تُرک وزیر خارجہ نے کہا کہ مصر کو اخوان المسلمین سے ابھی تک خطرہ ہے۔ لیبیا کی موجودہ حکومت الوفاق کے اخوان المسلمین سے قریبی تعلقات ہیں۔ عبدالفتح السیسی سمجھتے ہیں کہ دونوں گروپ مل کر مصر کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمین کو اسی طرح دہشت گرد تنظیم سمجھا جاتا ہے جیسے تُرکی میں کردوں کی پی کے کے جماعت کو۔
یاسر یاکیش نے کہا کہ اگر ترکی لیبیا میں اپنی موجودگی کو مزید مضبوط کرتا ہے تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان براہ جنگ کا خطرہ ہے جس سے خطے میں ایک نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے کیلئے سفارتی کوششیں کی جائیں کیونکہ سفارتکار اس مشکل سے دونوں ممالک کو بآسانی نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے ترکی اور لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کے درمیان سمندری حدود کے تنازعے کے حل کو سراہا لیکن کہا کہ سفارتکاری میں وہ سب کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا جس کی توقع کی جا رہی ہے۔