مصر میں فوج کو حکومت سازی کی اجازت مل گئی ہے جس کے بعد حاضر اور ریٹائرڈ فوجی سیاست میں حصہ لے کر حکومت بنانے کے اہل ہوں گے۔ مصری پارلیمنٹ نے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس میں حاضر اور ریٹائرڈ فوجی حکام کو حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم ابھی مصری فوج کی طرف سے اس قانون کی منظوری ہونا باقی ہے۔
نئی قانون سازی ایک سال سے التوا کا شکار تھی تاہم مصری عوام نے ووٹ کے ذریعے قانونی ترامیم کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد موجودہ صدر عبدالفتح السیسی کیلئے 2030 تک صدر برقرار رہنے کو قانونی جواز مل گیا ہے۔
گو کہ مصر ایک جدید جمہوریہ کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن اس کے حالیہ دو صدور کا تعلق فوج سے ہے۔ موجودہ صدر عبدالفتح السیسی بھی مصری فوج کے سابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے 2013 میں جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرثی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ 2014 تک مصر کے صدر رہے تاہم بعد میں فوج سے استعفیٰ دینے کے بعد وہ 2018 میں دوبارہ صدر منتخب کر لئے گئے۔
اس وقت مصر کی فوج کا سیاسی نظام میں عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ کئی سابق فوجی حکام عبدالفتح السیسی کے وزراء اور مختلف صوبوں کے گورنر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کئی سویلین اداروں کے سربراہ بھی حاضر اور ریٹائرڈ فوجیوں کو لگایا گیا ہے۔
مصر کی فوج اس وقت کئی منافع بخش کاروبار کر رہی ہے جس میں تعمیراتی منصوبوں سے لے کر کورونا وائرس کے حفاظتی ماسک کی تیاری ہے۔
نئی قانونی ترمیم میں فوجی حکام سے کہا گیا ہے کہ حکومت سازی یا اپنی سروس کے دوران وہ کسی طرح کی معلومات عوامی طور پر شیئر نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی حاضر یا ریٹائرڈ فوجی افسر مسلح فوج کی سپریم کونسل کی اجازت کے بغیر سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا۔
مصر کی مسلح افواج کی سپریم کونسل فوج کے سینئر جنرلز پر مشتمل ہے۔ یہ کونسل سابق صدر حسنی مبارک نے 2011 میں قائم کی تھی۔ واضح رہے کہ 2018 میں مصری فوج کے سابق سربراہ نے عبدالفتح السیسی کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تھا جس پر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا تھا تاہم اب انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سابق فوجی افسر نے عبدالفتح السیسی کی اجازت کے بغیر صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔