turky-urdu-logo

خون کے سوداگر

تحریر: کامران رفیع

حسان کے خاندان کا قتل بالخصوص اور سربنیسا ، بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی  بالعموم ایک روح فرسا داستان ہے۔

جو بھی اس داستان کو پڑھنے یا لکھنے بیٹھے گا اس کے ہاتھ ضرور لرز اٹھیں گے اور ذہن ایک دفعہ تو ضرور ماوف ہوجائے گا کہ اتنا بڑا المیہ اس دورجدید کے  "انسانیت دوست” یورپ میں کیسے رونما ہوگیا۔

حسان نیہونووچ بوسنیا کے مسلمان ہیں جو 1995 میں سربنیسا ، بوسینا میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام میں بچ گئے تھے۔ سرب فوجیوں کی طرف سے کی جانے والی اس مسلم کش مہم  میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی عین ناک کے نیچے صرف پانچ دن میں 8 ہزارسے زائد مسلمان قتل کیے گئے۔ حسان کے ماں باپ اور بھائ بھی ان قتل ہونے والے مظلوموں میں شامل تھے ۔

سربنییسا بوسنیا کا ایک  قصبہ ہے جو سربیا کی سرحد سے قریب ہی ہے ۔ 16 اپریل 1993 کو اقوام متحدہ نے سربنیسا کو "محفوظ علاقہ” قرار دیا اور نیدر لینڈ کی فوج ڈچ بیٹ  اقوام متحدہ کے امن مشن کے طور پر تعینات کردی گئ۔   حسان اقوام متحدہ کی اسی فوج کا مترجم تھا اس کا خاندان اسی علاقے میں قائم اقوام متحدہ کے شیلٹر میں 6 ہزار کے قریب دیگر مسلمان پناہ گزینوں کے ساتھ مقیم تھا ۔

پھر ایک دن امن کی فاختاوں نے انسانیت کا سودا کر ہی ڈالا ۔ڈج بیٹ  کے افسروں نے پناہ گزینوں کو کیمپ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ حسان نے بہت کوشش کی کہ ایسا نہ ہو مگر امن کی فاختہ 6 ہزار مسلمانوں کو خونی صلیب چڑھانے کا فیصلہ کرچکی تھی ۔ کچھ ہی عرصہ بعد حسان کے والد ابرو اور بھائ کی لاشوں کی باقیات ان اجتماعی قبروں سے برآمد ہوئیں جہاں سے اب تک 8 ہزار لاشیں دریافت ہوچکی ہٰیں اور نہ جانے کتنی باقی ہیں ۔ جبکہ اسکی ماں نصیحہ کی جلی ہوئ شوریدہ لاش بہت سی دیگرخواتین کی لاشوں کے ساتھ قریبی گاوں میں ایک ملبہ کے ڈھیر سے برآمد ہوئیں۔ ان خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا یہ لکھنے والے میں نہ لکھنے کی ہمت ہے نہ پڑھنے والوں میں پڑھنے کی ۔

بوسنیا کے مسلمانوں کی ایسی ایک داستان نہیں بلکہ ایسی ہزاروں خون سے لتھڑی پرچھائیاں ہیں جو ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کے سر پر منڈھلاتی اپنے خون کا حساب مانگتیں ہیں۔ اس عدالت نے 26 فروری 2007 کے دن ان ہزاروں مظلوموں کے ساتھ عجیب انصاف کیا جب اس عدالت نے یہ قرار دیا کہ اس میں تو کوی شبہ نہیں کہ سربنیسا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئ ہے مگر سرب فوج کو اس کا مورد الزام نہیں قرار دیا جاسکتا۔

جب حسان نے ہیگ کی مقامی عدالت سے رجوع کیا کہ اسکے خاندان اور بہت سے دیگر خاندانوں کو ڈچ آرمی کے اہلکاروں نے جانتے بوجھتے قاتلوں کے حوالے کیا تو عالمی انصاف کے مرکز نے ان ذمہ داروں کو یہ کہ کر بری الذمہ قرار دیا کہ وہ تو اقوام متحدہ کی کمانڈ میں کام کررہے تھے اس لیے ڈچ حکومت یا فوج کو اس قتل عام میں شریک قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ان عدالتوں کے انصاف کی وہی کیفیت ہے جو عامرعثمانی نے بیان کی:

کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے قتل جس نے کیا ہے وہی مدعی

قاضئ وقت نے فیصلہ دے دیا لاش کو نذر زنداں کیا جائے گا

اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے یہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی

یہ جو خنجر میں ہلکا سا خم آ گیا اس کا تاوان کس سے لیا جائے گا

حسان گذشتہ 25 سال سے بوسنیا کے مظلوم مقتولوں کے لیے انصاف کی جنگ لڑ رہا ہے ۔بوسنیا کے مقتولوں کی بہت سی مائیں انصاف کی تلاش میں آج بھی نوحہ کناں ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے انکی اس جدوجہد کو اسلا موفوبیا کے خلاف مربوط مہم کی شکل دی جائے۔ کیونکہ کشمیر میں بھارتی اقدامات ہوں یا  روہنگیا مسلمانوں  کے ساتھ برما کا سلوک , پولینڈ میں 60 ہزار انتہا پسند عیسائیوں کا اسلام کے خلاف مظاہرہ ہو یا ڈنمارک اور فرانس کے مسلم دشمن اقدامات ، یہ سب بتاتے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہہں اور دشمن کوئ نہتا نہیں۔ امن کی فاختہ کب انسانی خون کی سوداگر بن جائے اسکا کچھ پتا نہیں۔

Read Previous

آیا صوفیا میں برطانوی فلم کی شوٹنگ کے لئے ریکی

Read Next

ترک خیراتی ادارہ شامی مہاجرین کے لیے گھر تعمیر کروائے گا

Leave a Reply