زندگی تبدیلی کا نا م ہے، آنے والا ہر نیا لمحہ ایک نئی داستان اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور ہر آنے والی تبدیلی زندگی میں ایک نئے دور کی شروات ہوتی ہے۔
بلکل اسی طرح ہی ہر نئی تبدیلی اپنے ساتھ نت نئے اصول لے کر آتی ہے۔اور جو ان اصولوں پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کامیابی کی سیڑھی کو عبور کر لیتا ہے۔
کورونا وائرس کے باعث زندگی جینے کے نئے اصول سامنے آئے ہیں ہر چیز اب ویسی نہیں رہی جیسے پہلے تھی ،لوگوں کے جینے کا نظریہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ پہلے جن چیزوں کے بارے میں نہ سوچا جاتا تھا نہ ہی خیال رکھا جاتا تھا اب وہ زندگی کا سب سے اہم حصہ بن چکی ہیں۔
لوگوں نے گھروں سے کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جارہا ہے اور دیگر ایسی چیزیں سامنے رونما ہو رہی ہیں جو پہلے زندگی کے معمول کا حصہ نہیں تھیں۔لوگوں نے آہستہ آہستہ خود کو اب اس سانچے میں ڈھالنہ شروع کردیا ہے اور اس بات کو کہیں نا کہیں تسلیم بھی کر لیا ہے کہ انہیں اب اپنی زندگی ان تبدیلیوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہو کر ہی گزارنی ہے۔
یہ تبدیلیاں صرف نوجوانوں یا بڑوں کی زندگیوں میں ہی رونما نہیں ہو رہی بلکہ بچے بھی اس سب سے پوری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے خوف نے بچوں کی زندگیوں کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔وہ والدین جو اپنے بچوں کو کھیلنے کودنے کی ترغیب کرتے تھے آج اُ نہیں گھر میں بند رکھنے پر مجبور ہیں۔
جو عمر بچوں کی کھیلنے کودنے کی ، سیکھنے سیکھانے کی ہوتی ہے اس عمر میں بچوں کے ہاتھوں میں ٹیکانولوجی کے نئے نئے آلات آگئے ہیں ۔ جن سے بچوں کی صحت پر بہت بری طرح اثر پڑھ رہا ہے۔ بچے ہر وقت موبائل یا لیپ ٹاپ کی سکرینوں کے آگے جڑ کر بیٹھے رہتے ہیں جو انکی نظر پر بہت ہی برے اثرات چھوڑ رہے ہیں۔
اب تو کورونا وائرس کے ڈر کے تحت آن لائن کلاسز کا بھی انعقاد کیا جا رہا ہے تاکہ بچے اپنی پڑھائی سے مرحوم نہ رہ جائیں مگر اصل سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا بچے سچ میں آن لائن کلاسز سے بلکل اُسی طرح سیکھ پائیں گے جیسے وہ عام حالات میں سکول سے سیکھتے ہیں۔
کیا آگے آنے والی نسل کو بھی وہی سہولیات کبھی فراہم ہو پائیں گی جو ان سے پہلے بچوں کو ہوئی تھی یا نہیں۔یہ سوال سننے میں جتنے خوفناک لگتے ہیں اُتنے ہی اسکے اصل زندگی پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ان سب حالاتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے بہت ضروری ہے کہ اب ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر نظر ثانی کی جائے تاکہ آنے والا مستقبل خوبصورت ہو سکے۔
