آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس میں 2 ہفتوں کے مذاکرات کے بعد ترقیاتی ممالک کے وفود کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے فنڈ کی منظوری دی گئی۔
کوپ 29 میں 300 ارب ڈالر سالانہ فنڈ کی منظوری دی گئی ہے، جِس پر ترقی پذیر ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔
فنڈز ناکافی ہیں: ترقی پذیر ممالک کا مؤقف
ترقی پذیر ممالک کی جانب سے عالمی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس میں 1.3 کھرب ڈالر فنڈز کا مطالبہ کیا گیا تھا، جبکہ اِس کے مقابلے میں صرف 300 ارب ڈالرز سالانہ کا وعدہ کیا گیا، جِس پر ترقی پذیر ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔
ترقی پذیر ممالک نے اِن فنڈز کو ناکافی قرار دیا ۔ بھارت کی اقتصادی امور کی مشیر چاندنی رائنا نے اِس ڈیل کو”مایوس کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے انتہائی قلیل رقم ہے۔ اُنہوں نے ڈیل کی منظوری کے طریقہ کار پر بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” یہ غیر منصفانہ طریق کار تھا، بھارت کو اِس میں اختلافی بیان دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔
کم ترقی یافتہ ممالک اور چھوٹے جزائر کی جانب سے یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا کہ اُنہیں یکسر نظر انداز کیا گیا۔
ماہرین اور تنظیموں کا ردِ عمل
آکسفیم انٹرنیشنل کی کلائمیٹ پالیسی لیڈ نفکوٹے دابی نے اِس ڈیل کو ” عالمی پونزی اسکیم ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ” شرمناک ہے اور موسمیاتی بحران کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔
گرین پیس انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا کہ فوسل فیولز کی کمپنیوں کو معاہدے میں شامل کرنا چاہیے۔ تنظیم کے نمائندے کا کہنا تھا ، کہ یہ کمپنیاں ہر سال 1 کھرب ڈالر کا منافع کماتی ہیں، مالی معاونت کے لیے اِنہیں بھی شامل کرنا چاہیے۔
پٹسڈیم انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر اور ایکسپرٹ اوٹمان ایڈن ہوفر نے کہا کہ "یہ ڈیل مکمل ناکامی تو نہیں تاہم مسئلے کے حل کے لیے مزید تعاون اور جدت کی ضرورت ہے۔”
اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
ڈیل پر شدید تنقید کے باوجود موسمیاتی ماہرین اور اقوامِ متحدہ کے نمائندوں کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ اِس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ یورپی یونین کے کلائمیٹ کمشنر ووک ہوکسٹرا نے ردِ عمل پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ” اگرچہ یہ ڈیل کھربوں میں نہیں، تاہم ہمیں اعتماد ہے کہ ہم اِس مالی امداد اور ڈھانچے کی مدد سے 1.3 ٹریلین ڈالرز والا ہدف حاصل کر لیں گے”۔
دوسری جانب اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کی جانب سے بھی اِس ڈیل کی حوصلہ افزائی کی گئی، اُنہوں نے کہا کہ "یہ ڈیل ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے جِس کے ذریعے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔