
تحریر:عطاءالرحمن دراني
ترکیہ میں کچھ دفتری مصروفیات سے فرصت ملی تو دوستوں کے ساتھ بوسنیا دیکھنے کا پروگرام بنا۔ لیکن طبیعیت کی ناسازی کے باعث یہ ارادہ کینسل کیا اور پورے ترکیہ کا ایک چکر لگا کر دوبارہ استنبول پہنچا۔
کچھ دن آرام کے بعد دوستوں کے ساتھ افغانستان جانے کا تذکرہ کیا کہ دفتری مصروفیات کے ساتھ ساتھ کچھ تاریخی مقامات کی بھی سیر کی جائے۔
اس سلسلے میں بامیان، نورستان، اور اریوب زازی کا انتخاب کیا گیا. ہم نے 13 جون کو افغانستان کی لوکل ایئرلائن آریانا کے ذریعے استنبول سے تقریبا 5 گھنٹے کا سفر کر کے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچے، ایک ہفتہ سرکاری مصروفیات گزارنے کے بعد ویک اینڈ پر ہم نے بامیان جانے کا پرعزم ارادہ کیا۔
ہم تین گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں جن میں دو چھوٹی گاڑیاں اور ایک ھائی لکس گاڑی شامل تھی، براستہ ارغنداب، میدان شہر، بہسود بامیان پہنچے۔
کابل شہر سے روانہ ہونے سے پہلے ہم نے گاڑی کی ٹینکی فل کی۔ تقریبا 62.5 لیٹر پٹرول ڈلوایا ۔ کابل میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 64 افغانی ہے جبکہ ایک ڈالر 86 افغانی کے برابر ہے۔
گرمی میں گاڑی کے ایئرکنڈیشنر سے لطف اٹھاتے بامیان کی طرف جارہے تھے، جیسے جیسے بامیان کا علاقہ شروع ہورہا تھا سرسبز وادیاں ،دور تک پھیلی چراگاہیں نظر آنا شروع ہوئیں۔
آنکھوں میں ایک ٹھنڈک کا احساس جاگا۔ گاڑی خود چلانے کی وجہ سے باقاعدہ تصویری عکس بندی کرنے سے قاصر رہا۔
جو اہم بات ہم نے نوٹ کی وہ یہ کہ موجودہ حکومت نے اپنے محدود امکانات کے باوجود کابل تا قندھار سڑک پر کام شروع کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ایک گھنٹہ کے لیے ہم نے بھی مشکلات برداشت کیں۔ لیکن راستے کی خوبصورتی نے ہمیں مشکلات بھلا دیں۔
سیب، چیری اور شفتالو کے باغات سڑک کے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگے لیکن ان راستوں پر گزرتے وقت اس بات کا احساس ضرور ہوتا کہ ان راستوں نے، نظر آنے والے شہروں اور بستیوں نے شاید ابھی امن کی نعمت دیکھی ہے۔
ورنہ کچھ عرصہ قبل تک وطن کے ہر گلی کوچے میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ اس خطے کی ہر دیوار خون سے رنگی ہوئی ہے۔ جنگ خوف کا دوسرا نام ہے جس کے قہر سے شہر کے ہر آنگن میں موت کا رقص ہوتا ہے ۔ زندگی ارزاں ہو جاتی ہے اور قضا اس مقامِ جنگ پر ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاتی ہے۔
مجھے پورے افغانستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جس پر جنگ کے آثار نہیں گزرے تھے۔ ایک خونی انقلاب کے بعد اب کم از کم امن ضرور آیا ہے۔
اس امن کے نتیجے میں ہم بلاخوف منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ پورے راستے میں صرف ایک چیک پوائنٹ پر ہم سے سوال جواب ہوئے جس کے بعد ہمیں آگے کی طرف سفر کی اجازت ملی۔ کچھ مقامات کی مشابہت ایسی تھی کہ مجھے لگا جیسے ناران سے بابوسر ٹاپ کی جانب سفر ہو رہا ہے۔
ہم دریائے بہسود کے علاقے میں صوبہ بامیان اور میدان وردگ کی سرحدی حدود پر پہنچ چکے تھے اور کابل سے چلے ہوئے ہمیں تقریباً 4 گھنٹے گزر چکے تھے۔
یہاں ہم نے دریا کے کنارے زبردست ناشتہ کیا ،کہنے کو تو ناشتہ تھا لیکن درحقیقت ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا.
ہنستے کھیلتے بالآخر ہم نے بامیان کی سرزمین پر قدم رکھا تو ذہن میں تاریخی جھروکوں سے پونے چھے سو سال قبل مسیح کی تاریخ کے اوراق الٹنے پلٹنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔