بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے 1992 میں بابری مسجد شہید کرنے والے تمام افراد پر عائد الزامات ختم کر کے انہیں بری کر دیا ہے
ان تمام افراد کا تعلق بھارت کی موجودہ برسر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی، بی جے پی کے رہنما ایم ایم جوشی اور اُما بھارتی نے عدالت میں الزامات کی تردید کر دی جس کے بعد عدالت نے تمام ملزمان کو عائد الزامات سے بری کرنے کا حکم جاری کیا۔
16 ویں صدی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں 2000 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
اس واقعے کے بعد بھارت میں ہندوتوا کا سیاسی عروج شروع ہوا جس کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے لئے زندگی ہر روز مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
بابری مسجد کی شہادت پر بھارتی حکومت نے وفاقی سطح پر جو کمیشن بنایا تھا اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بی جے پی کے تمام سرکردہ رہنماوٗں سمیت سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بھی مسجد کی شہادت میں ملوث قرار دیا تھا۔ ایل کے ایڈوانی، ایم جوشی اور اُما بھارتی سمیت 49 افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے۔ ان میں سے 17 افراد اب تک اپنی طبعی موت مر چکے ہیں۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے گئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ مسجد پر حملہ کسی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقدمے میں نامزد بی جے پی کے تین رہنما عدالت میں موجود نہیں تھے جبکہ میڈیا کو بھی عدالتی کارروائی سے روک دیا گیا تھا۔
عدالت کے اس فیصلے کو بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کی خصوصی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ایک سال بعد آیا جس میں گذشتہ سال بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر بنانے کا حکم جاری کیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مسجد کو شہید کرنے کا واقعہ بذات خود ایک بڑا جرم ہے لیکن اس کے باوجود عدالت نے مسجد کی جگہ کو رام مندر بنانے کا حکم دیا۔