
زندگی چاہے انسان کی ہو یا کسی جانور کی اسے اکیلے گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ہر کسی کو زندگی گزارنے کے لیے کسی نہ کسی ساتھی کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر وہ ساتھی آپکا ساتھ چھوڑ جائے تو زندگی صرف گزارنے کا نام بن کر رہ جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی ایک ایسا ہی ہا تھی موجود ہے جو اپنی ساتھی کے چلے جانے کے بعد اسکے غم میں اپنی زندگی گزار رہا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پاکستانی حکام اس بات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ آیا دارلحکومت اسلام آباد میں موجود واحد ہاتھی کو اسکی جان بچانے کے لیے بیرون ملک مناسب پناہ گاہ میں منتقل کیا جائے یا نہیں۔ جنگلی حیات کے ماہر ین کے مطابق اس کام میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مئی میں وائلڈ لائف حکام کو کاوان نامی ہاتھی کو کسی محفوظ جگہ منتقل کرنے حکم دیا تھا۔
1985 میں سری لنکا نے کاوان کو ایک سال پہلے پاکستان کو تحفہ دیا تھا۔ مگر اسکے ساتھی کی وفات کے بعد اسے چینوں میں باندھ کر رکھا جانے لگا جسکی وجہ سے2015 میں کاوان کی رہائی سے متعلق مختلف قسم کی ریلیاں بھی نکالی گئں۔
کاوان کی زنجیروں میں جکڑی تصاویر نے عالمی سطح پر چیخ و پکار کو اوجاگر کیا۔جسے امریکی گلوکار چیر نے بھی سراہا۔ این جی او کے کارکنوں نے 2016 میں کاوان کی رہائی کے لیے ایک درخواست دائر کی تھی جسے پوری دنیا میں موجود 200،000 سے زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی۔
بہت سے لوگوں نے کاوان ہاتھی کو پاکستان کا سب اکیلا اور اداس ہاتھی قرار دیا ہے اور حکام سے اسکی طبیعت خراب ہونے کے سبب اسے آزاد کرنے اور کسی محفوظ جگہ منتقل کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
وائلڈ لائف کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ کاوان کی ساتھی ہاتھی کی موت کے بعد اسے قابو کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا جسکی وجہ سے اسے زنجیروں میں باندھا گیا تھا۔
امریکہ میں قائم پروگریسیو اینیمل ویلفیر سو سا ئٹی ( پی اے ڈبلیو ایس ) کی چار رکنی ٹیم کے جنگلی حیات کی بحالی میں شامل ایک گروپ نے کاوان کی جانچ پڑتال کی ہے کہ آیا وہ سفر کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔
گروپ کے ممبر یورو کا کہنا کہ کاوان بلکل ٹھیک ہے اور سفر کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے خون کے نمونوں کا نتیجہ آتے ہی ہم اسکی مکمل حالت پر کوئی نتیجہ اخز کر سکیں گے۔
سرکاری سطح پر چلنے والے وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے سربراہ انیس الرحمان نے تصدیق کی کہ کاوان کے لیے کمبوڈیا کو محفوظ مقام کے طور پر چنا گیا ہے۔
انیس کا مزید کہنا تھا کہ کاوان کو اسکے آبائی گھر سری لنکا میں نہیں بھیجا جا سکتا کیونکہ وہاں کاوان جیسے ریٹائرڈ ہاتھیوں کے لیے مناسب پناہ گاہ موجود نہیں ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شق نہیں کہ اتنے بڑے اور طاقتور جانور کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اگر کاوان کو جہاز میں سفر کرنے کی اجازت دے بھی دی جاتی ہے تو پھر بھی چار پانچ ٹن وزنی جانور کو بیرون ملک منتقل کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اسکی منتقلی کے لیے سب سے ضروری اسکی صحت ہے ۔ اسکو بیرون ملک بھیجنے کے سفر کے دوران پرسکون رہنے کی ٹرینینگ دینے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ اگر وہ پرواز کے دوران آپے سے باہر ہوجا تا ہے تو یہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔