
آسٹریا کی آئینی عدالت نے پرائمری اسکول میں بچیوں کے اسکارف لینے پر عائد پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
آئینی عدالت کے سربراہ کرسٹوف گریبن واٹر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسکارف پر پابندی معاشرے کے مختلف طبقوں میں مساوات کے خلاف ہے۔ یہ مذہبی آزادی، دوسرے کی رائے کا احترام اور مذہبی عقائد پر پابندی ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
واضح رہے کہ آسٹریا کی دائیں بازو کی ایک انتہا پسند حکومت نے 2019 میں پرائمری اسکول کی بچیوں کے اسکارف پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
عدالت نے کہا کہ اس پابندی سے مسلمانوں کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ہے اور اس سے ملک کے نظام تعلیم میں امتیازی سلوک بڑھتا جا رہا ہے۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس قانون سے مسلمان بچیوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور انہیں معاشرے میں الگ تھلگ کرنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔
آئینی عدالت کے سربراہ نے کہا کہ تعلیمی نظام میں صرف مسلمان بچیوں کے مذہبی لباس پر پابندی عائد کرنا انہیں معاشرے میں رسوا کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ یہ پابندی آئین کے غیر جانبداری کے اصول کے خلاف ہے۔ حکومت اس پابندی پر ٹھوس دلائل دینے میں ناکام رہی ہے۔
عدالت نے آسٹریا کے چانسلر سبیسشئن کروز کی حکومت کو حکم دیا کہ مسلمان بچیوں کے اسکول میں اسکارف پہننے کی پابندی کے قانون کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
عدالت نے وزارت تعلیم کو اس مقدمے پر ہونے والے اخراجات کو متعلقہ خاندان کو ادا کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔