وزیراعظم عمران خان کی گرتی ہوئی مقبولیت نے فوج کے حکومتی معاملات میں مداخلت کو مضبوط کر دیا ہے۔
امریکی میڈیا بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں درجنوں ریٹائرڈ اور حاضر فوجی حکام کو حکومتی معاملات میں شامل کیا گیا ہے۔ سرکاری فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے سربراہ حاضر سروس فوجی حکام لگا دیئے گئے ہیں۔ ان تینوں سرکاری اداروں میں حاضر سروس فوجی حکام کی تعیناتی حالیہ دو ماہ میں کی گئی ہے۔
معیشت میں کساد بازاری کے باعث وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چینی کے حالیہ بحران میں عمران خان کے قریبی دوست کا نام آنے کے بعد حکومت کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔
تجزیہ کار کافی عرصے سے یہ بات کہتے آ رہے ہیں کہ عمران خان کی پارٹی کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں عمران خان کو صرف 46 فیصد نمائندگی حاصل ہے۔ حکومت سازی کیلئے چھوٹی جماعتوں کے اتحاد سے پی ٹی آئی کی حکومت قائم کی گئی۔
پاکستان کے معاملے میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فوج پاکستان کا سب سے مضبوط ادارہ ہے اور ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کئی سال تک فوجی آمروں نے بلا شرکت غیرے حکومتیں کی ہیں۔ لیکن عمران خان کے دور میں اس طرح کی فوجی مداخلت بڑی عجیب دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ 2018 کے الیکشن میں ” نئے پاکستان ” کا نعرہ لے کر انتخابات جیت کر آئے۔
اٹلانٹک کونسل کے سینئر تجزیہ کار عزیر یونس نے بلوم برگ کو بتایا کہ اہم حکومتی معاملات میں حاضر اور ریٹائرڈ فوجی حکام کی شرکت کے بعد سویلین کیلئے ریاستی امور چلانا ممکن نہیں رہا ہے۔ گورننس میں فوج کا کردار مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
فوج کا حکومتی اختیارات میں کردار اس وقت واضح طور پر سامنے آیا جب کورونا وائرس کی عالمی وبا سے متعلق سرکاری اجلاسوں میں باوردی فوجی حکام بریفنگ دیتے ہوئے نظر آئے۔ فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے سابق ترجمان ریٹاٹرڈ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اب وزیراعظم عمران خان کے مشیر اطلاعات ہیں اور وہ 60 ارب ڈالر کے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں شامل 12 وزراء اس وقت عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں جس میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی شامل ہیں۔
حکومتی معاملات میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے سربراہ زیغم رضوی کے ساتھ دو حاضر سروس فوجی آفیسرز کو ان کی معاونت کیلئے تعینات کیا گیا ہے۔ زیغم رضوی نے بلوم برگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کے اکثریتی معاملات فوج کے سپرد کر دیئے جائیں تو وہ بہتر طور پر کام کر سکتے ہیں کیونکہ فوج میں ایک بہترین نظام ہے۔ وہ کام کو مناسب اور بہتر انداز میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ زیغم رضوی نے دس سال ورلڈ بینک میں ہاؤسنگ ایکسپرٹ کے طور پر کام کیا ہے۔
پاکستانی فوج نے بلوم برگ کو اپنا موقف دینے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن بھی بیان دینے کیلئے دستیاب نہیں تھے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بھی بلوم برگ سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
معاشی بدحالی:
بلوم برگ کے مطابق عمران خان بارہا فوج کے ساتھ اپنے تعلقات کی تردید کرتے رہے اور 2017 میں اپنی انتخابی مہم میں وہ یہ بھی کہتے رہے کہ کوئی جمہوری ملک فوج کی مداخلت سے ترقی نہیں کر پاتا۔ 2018 میں انتخابات جیتنے کے بعد انہوں نے مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد معیشت دوبارہ ایک بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کیسز کی تعداد ایک لاکھ 8 ہزار اور 2200 اموات ہو چکی ہیں۔
68 سال میں پہلی بار مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی منفی میں چلی گئی ہے اور اس سال جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں جی ڈی پی منفی 1.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
پیرس کلب کی طرف سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں کچھ سہولت بھی دی گئی ہے اور آئی ایم ایف نے کورونا کی عالمی وبا سے نمٹنے کیلئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر بھی ادا کئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ابھی بھی قرضوں میں مزید سہولت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
حکومت پر فوج کی گرفت کا تاثر اس وقت مزید ابھر پر سامنے آیا جب مارچ میں وزیراعظم عمران خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگلے ہی روز پاک فوج کے ترجمان نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ کورونا وائرس پر حکومت کی طرف سے بریفنگ کیلئے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو جو اعداد و شمار فراہم کئے جاتے ہیں وہ بھی پاک فوج کے میڈیا سینٹر کی طرف سے دیئے جاتے ہیں اور ان پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا باقاعدہ لوگو بھی لگا نظر آتا ہے۔
24 مارچ کو ایک بریفنگ میں اس وقت صورتحال عجیب ہو گئی جب وزیراعظم عمران خان سے میڈیا نے سوال کیا کہ یہاں انچارج کون ہے گو کہ میڈیا کا اشارہ کسی بھی طور پر فوج کی طرف نہیں تھا تاہم عمران خان نے پریس کانفرنس سے فوری چلے جانے کی دھمکی دی۔
مئی کے آخری ہفتے میں عیدالفطر سے ایک روز قبل جب کراچی میں پی آئی اے کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہوا تو ایوی ایشن کے وزیر غلام سرور خان قومی فضائی کمپنی کا دفاع کرتے نظر آئے جس کے سربراہ حاضر سروس ایئر مارشل ہیں۔ غلام سرور خان نے میڈیا کے سخت سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا فوج کے کسی آفیسر کو متعین کرنا کوئی جرم ہے۔
نیویارک میں قائم ایک تھنک ٹینک سے وابستہ تجزیہ کار عارف رفیق نے بلوم برگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج حکومت کی کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی سے بالکل خوش نہیں تھی اور اس کا اظہار وہ کئی بار کر چکی تھی۔ دوسری طرف سی پیک اور صوبہ پنجاب کے معاملات پر بھی فوج عمران خان کی حکومت سے ناراض دکھائی دیتی ہے۔
حکومت نے پچھلے سال ہی حکومتی پالیسی سازی میں سرگرم کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گذشتہ سال تاجر برادری کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی اور ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔