turky-urdu-logo

افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی، طالبان اور امریکہ ایک پیج پر کیوں؟

رپورٹ: شبیر احمد 

اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء اور کابل پر طالبان کے قبضے کی خبروں نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔انخلاء اور طالبان کی پیش قدمی کا عمل اگرچہ اچانک رونما ہوا لیکن  امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام سے ایک سال قبل ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ 29 فروری 2020 کو جس معاہدے پر دستخط کیے گیے اسے دوحہ معاہدہ یا افغانستان میں معاہدہ برائے امن کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی تقریب بھی دنیا بھر میں مشہور ہوئی ۔اس معاہدے نے  افغانستان میں نہ صرف 20 سالہ جنگ کےخاتمے کا عندیہ دیا جبکہ بعد ازاں اسی کی بنیاد پر اتحادی افواج نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ  بھی کیا ۔

دوحہ  معاہدے کی جس شق پر امریکہ کی جانب سے انخلاء کے بعد سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ طالبان کو افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یاد دہانی تھی۔ معاہدے کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق امریکہ اور طالبان نے اس بات اتفاق کیا کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔  مشترکہ اعلامیے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اور دوسرے بڑے دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں نہیں دی جائےگی اور نہ ہی انہیں پنپنے کا موقع دیا جائے گا۔

دوحہ معاہدے اور انخلاء کے بعد امریکہ کی جانب سے 31 جولائی 2022 کو کابل میں ایک ڈرون آپریشن کیا گیا۔امریکہ کے مطابق  اسی روز صبح 6 بجے کے قریب القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری جیسے ہی اپنے گھر کے بالکونی پر نمودار ہوئے ، ڈرون نے نشانہ لگاتے ہوئے دو ہیل فائر داغ دیے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ایمن الظواہری ہلاک ہوئے جس کا اعلان امریکی صدر جو بائیڈن نے میڈیا پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ”القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے سے ہلاک ہوگئےہیں، ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کتنا وقت لگے لیکن آپ جہاں بھی ہوں، اگر آپ ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ ہیں تو ہم آپ کو وہاں سے نکالیں گے”۔

اس اعلان کے بعد امریکہ اور افغانستان  میں نئے لفظی جنگ نے جنم لے لی۔ امریکہ نے الزام لگایا کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کی خلاف ورز ی کرتے ہوئے القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کی ہیں، جس کا ثبوت کابل میں ہی ایمن الظواہری کی ہلاکت ہے۔ طالبان نے تردید کرتے ہوئے ایمن الظواہری کی موجودگی سے انکار کیااور امریکی ڈرون حملےکوافغان فضائی حدودد کی خلاف ورزی قرار دیا ۔

اس واقعے کے ٹھیک گیارہ ماہ بعد30 جون 2023کو  امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے  بات کرتے ہوئے ایک ایسا دعوی کیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر رہا تھا۔

"یاد ہے میں نے افغانستان کے بارے میں کیا کہا تھا؟ میں نے کہا کہ القاعدہ وہاں نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کہ ہمیں طالبان سے مدد ملے گی،اب کیا ہو رہا ہے؟ اپنی میڈیا دیکھیں۔ میں ٹھیک تھا.”

یہ وہ خیالات تھے جس کا اظہار صدر بائیڈن نے ایک سوال کےجواب میں پریس کانفرنس کے آخری لمحے رخصت ہوتے ہوئے کیا۔

طالبان نے امریکی صدر کے بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان میں مسلح گروپوں کے عدم وجود کے بارے میں خیالات کو حقیقت کا اعتراف سمجھتے ہیں۔

امریکہ نے جہاں ایک جانب افغانستان میں القاعدہ کی عدم وجود کا اقرار کیا تو وہاں دوسری جانب اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کا ذیلی ادارہ” اقوام متحدہ پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم” اپنے رپورٹس میں القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر خبردار اور متنبہ کرتا رہا۔ نگرانی کرنے والی اس ٹیم نے رواں سال 13 فروری میں رپورٹ شائع کی جس میں القاعدہ کی موجودگی کا الزام لگایا گیا۔بعد ازاں امریکی صدر کے  بیان کو طالبان حکام رپورٹ کے مقابلے دفاع کے طور پر بھی استعمال کیا۔

حال ہی میں 25 جولائی 2023 کو اقوام متحدہ پابندیوں کی نگرانی کرنے والی اس ذیلی ٹیم نے پہلی سے ملتی جلتی ایک اور  رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ  میں دعوی کیا گیا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کے القاعدہ کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں القاعدہ مرکزی قیادت  کی تعداد 30 سے ​​60 کے درمیان ہے، جب کہ اس کے جنگجوؤں کی تعداد 400 بتائی جاتی ہے، جن میں خاندان کے افراد بھی شامل ہیں، ان کی کل تعداد 2000 تک پہنچ جاتی ہے۔

اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی رپورٹ اور امریکی صدر جو بائیڈن کے دعوؤں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کی عدم موجودگی کا اقرار کیا تو اقوام متحدہ نے موجودگی ہر اصرار کرتے ہوئے اپنی دوسری رپورٹ بھی شائع کردی۔

اس حوالے سے جب ہم نے ماہر افغان امور اور سینئر صحافی طاہر خان سے پوچھا تو انہوں نےاسے امریکہ اور طالبان کے درمیان مسلسل مزاکرات کا نتیجہ قرار دیا۔

طاہر خان نے ہمیں بتایا کہ” دوحہ معاہدے کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان مسلسل مزاکرات ہوتے رہے ہیں۔ یہ مزاکرات اگرچہ کچھ عرصے کے لیے تعطل کا شکار ہوئے لیکن اس کے بعد تسلسل برقرار رہا”۔

"طالبان اور امریکہ کے درمیان مزاکرات دو سطح پر ہوتے رہے، سیاسی نوعیت کے مزاکرات تو کئی بار ہم نے میڈیا رپورٹس میں دیکھیں ، جس کی حالیہ مثال دوحہ میں ہونے والی ملاقات ہے۔ اس کے علاوہ اٹیلیجنس اداروں کی سطح پر بھی مزاکرات اور ملاقاتوں کا دور چلتا رہا”

طاہر خان سمجھتے ہیں کہ "طالبان نے ان مزاکرات اور ملاقاتوں میں امریکہ کو مطمئن کردیا ہوگا۔ امریکی صدر کا بیان ان کے اداروں کی رپورٹس پر منبی ہوتا ہے۔ طالبان کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوتوں اور اس پر امریکہ کی جانب سے اطمینان اس بات کا اعلان ہے کہ امریکہ کو القاعدہ کے حوالے سے اب کوئی فکر لاحق نہیں، وہ مطمئن ہوچکا ہوگا”۔

پاک افغان یوتھ فورم کے بانی رکن اور ڈائریکٹر ساوتھ ایشیاء ٹائمز سلمان جاوید امریکی صدر کے بیان کو پالیسی میں تبدیلی سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ” تحقیقاتی صحافیوں کے مطابق  امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمت ہوچکی ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف کچھ نا کچھ مشترکہ کارروائیاں کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ہونے والی ملاقات سے اس بات کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے  کہ امریکی افغانستان میں سفارتی مشن دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں”۔

انہوں نے مزید کہا کہ’ امریکی صدر کے بیان کو امریکی جرائد اور اخبارات کی جانب سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

فوجی افسران، ریاستی مشیران، اور تجزیہ کاروں نے ان کے اس بیان پر تنقید کی۔امریکی قومی انٹیلیجنس ایجنسی نے شاید القاعدہ کے نا ہونے سے متعلق کوئی رپورٹ دی ہوگی، تاہم ملک کے باقی سٹیک ہولڈرز اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں’۔

اقوام متحدہ کے دیگر ممالک کی تشویش سے متعلق سوال پر سلمان جاوید بتاتے ہیں کہ ” امریکہ کی جانب سے نرم گوشہ اس با ت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ شاید وہ اپنا رستہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بحثیت پاکستانی ہمیں اقوام متحدہ کے رپورٹ کو دیکھنا چاہیےاور اس کو لے کر چلنا چاہیے”۔

"اقوام متحدہ کے ذرائع معلومات اس وقت امریکہ سے زیادہ ہونگے، اس لیے ہمیں اس کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ ہم دہشت گردی سے نمٹ بھی رہے ہیں جو وہاں افغانستان سے آرہی ہے”۔

اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے طاہر خان نے واضح کیا کہ’قوام متحدہ کے معلومات کا اپنا نظام ہے، ان کی رپورٹ مختلف ممالک کے بیانات پر مشتمل ہوتی ہے۔ چین، ازبکستان اور پاکستان کے علاوہ کئی ممالک افغانستان سے متعلق خدشا ت کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ طالبان کی جانب سے مسلسل تردیدکی جاتی رہی ہے۔ اس لیے تاحال وہ عدم تحفظ کا شکار ہے’۔

Read Previous

سیکرٹری جنرل اسلامی تعاون تنظیم کا ڈنمارک کے وزیر خارجہ سے رابطہ، قرآن کی بے حرمتی روکنے کا مطالبہ

Read Next

الخدمت فاؤنڈیشن کے ایم ڈی کا ٹکا اسلام آباد کا دورہ

Leave a Reply