ترکی نے مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے چھ قدیم مقامات کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
ترکی نے سومیلا کا معبد خانہ سیاحوں کے لئے کھول دیا۔ یہ معبد خانہ بحرہ اسود کے ساحلی شہر میں واقع ہے۔ یہ عیسائی مذہب کا قدیم معبد خانہ ہے جسے تہذیبوں کا مسکن بھی کہا جاتا ہے۔ پہاڑوں کو کاٹ کر یہ معبد خانہ کئی صدیاں قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ عیسائیوں کے فرقے آرتھوڈوکس سے اس معبد کا تعلق ہے۔ اس معبد خانے کی بحالی پر ترک حکومت نے ساڑھے تین سال کام کیا اور اب اس کی تزئین و آرائش کے بعد آرتھوڈوکس فرقے کے حوالے کر دیا گیا ہے جہاں وہ اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
دوسرا اہم سیاحتی مقام قدیم شہر اینی ہے۔ یہ شہر اپنے ایک ہزار ایک گرجا گھروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 2016 میں اسے اپنی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
اس شہر کی ایک اور پہچان ایسٹرن ایکسپریس ٹرین ہے۔ یہ ٹرین انقرہ سے کارس تک جاتی ہے۔ جب یہ ٹرین اس شہر سے گزرتی ہے تو اس کا نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث ٹرین سروس فی الحال معطل ہے۔یہ شہر ترکی کے مشرقی صوبے کارس میں ہے جو دریائے آرپاجے کے کنارے آباد ہے۔ یہ ترکی اور آرمینیا کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ شہر پانچویں صدی عیسوی میں آباد کیا گیا۔ اس شہر میں قدیم گرجا گھروں، معبدوں اور مساجد کے نشانات آج بھی پائے جاتے ہیں۔
تیسرا اہم سیاحتی مقام الہارا ویلی ہے۔ اپنی فن تعمیر کے لئے مشہور یہ ویلی مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے کشش رکھتا ہے۔ یہ ویلی کیپاڈوکیا ریجن میں موجود ہے۔ اس شہر کو عیسائیوں نے آباد کیا جو رومیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر یہاں آباد ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کو رہنے اور اپنی مذہبی آزادی کے لئے ایک محفوظ اور خفیہ جگہ کی ضرورت تھی جس پر انہوں نے الہارا ویلی کو آباد کیا۔ اس ویلی میں 105 گرجا گھر ہیں جس میں سے اب صرف 14 سیاحوں کے لئے کھولے گئے ہیں۔ ان گرجا گھروں میں خوبصورت خطاطی اور تصویریں بنی ہیں۔ یہ ویلی 14 کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی دیواریں 150 میٹرز بلند ہیں۔
ویلی کے چار داخلی دروازے ہیں۔ ویلی میں داخل ہونے کے لئے 300 سیڑھیوں کا ایک سلسلہ بھی ہے۔
چوتھا اہم سیاحتی مقام دیرین کویو ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا زیر زمین قلعہ نما شہر ہے۔ اس شہر کو بھی دوسری عیسوی صدی میں عیسائیوں نے آباد کیا جو رومیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر نئی جگہ کی تلاش میں پھر رہے تھے۔ یہاں لوگوں نے رومیوں سے بچنے کے لئے زیر زمین آٹھ منزلہ کمپلیکس تعمیر کیا تھا۔ اس کمپلیکس میں کئی کمرے تعمیر کئے گئے جہاں اشیائے خورد و نوش کو ذخیرہ کیا جاتا تھا
پانچواں اہم سیاحتی علاقہ جوبیکلی تیپے ہے۔ اس علاقے کو یونیسکو نے 2018 میں اپنی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا۔ اس علاقے میں انسانی تہذیب کے ارتقا کے آثار پائے جاتے ہیں جب لوگوں نے شہروں میں زندگی گزارنا سیکھی۔ یہاں آباد لوگ اپنی مذہبی رسومات کھلے میدانوں میں ادا کیا کرتے تھے۔ یہاں 12 ہزار سال پرانے مندر کے آثار ملے ہیں جو اہرام مصر سے بھی قدیم ہے۔ یہ ترکی کے گنجان آباد شہر سنلیوفرا میں واقع ہے۔
چھٹا سیاحتی مقام کایا کوئے ہے جو مشرقی بحیرہ روم کے ساحلی شہری فاتح کے قریب ہے۔
یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں امیر ترین شہروں میں سے ایک تھا۔ یہاں زیادہ تر یونانی آباد ہیں۔ 18 ویں اور 20 ویں صدی میں یہ گاوٗں اپنے عروج پر تھا۔ 1923 میں لوزانے کنونشن کے بعد یونانی یہاں سے ہجرت کر گئے اور زیادہ تر ترکوں نے اس علاقے میں اپنا مسکن بنایا۔