
ترکیہ کے قومی وقت شام 4 بجے ترکیہ پر ایک درد ناک آفت آن ٹوٹی جس نے ایک لمحے کے لیے ترکوں کے دلوں کو لرزا کر رکھ دیا۔ قومی خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی نے 3 ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ملک پر حملہ کرنے کے آپریشن سے جنرل سٹاف کو آگاہ کیا تو یہ وقت بلکل ایک ڈراونے خواب جیسا لگنے لگا جیسے کسی اپنے نے دھوکہ دری کرکے پیچھے سے وار کیا ہے اور کمر کو لہو لہان کر دیا ہے۔
رات 9 بجے جب ان بغاوت کرنے والے غداروں کے راز سے پردہ اْٹھا تو اپنے ان گندے ارادوں کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ان ناپاک ارادوں پر وقت سے پہلے ہی عمل کرنا شروع کر دیا۔
رات 10 بجے ان غدار فوجیوں نے اپنی کاروائیاں اصل شکل میں دنیا کے سامنے لانا شروع کیں اور اپنے پہلے وار کے طور پر استنبول پر گندی نظریں جمائے فاتح اور بوگازچی پل کو بلاک کر دیااور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 16 قومی طیارے جنہیں ان گداروں نے اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا انقرہ کی سر زمین کے صاف آسمان سے گزارنا شروع ہو گئے۔
رات 10:50 پر سارجنٹ عمر حالیث دمیر نے ان غداروں کے رہنما میجر جنرل سیمی ترزی کو قتل کرکے مثال قائم کردی اور اسکے ناپاک ارادوں کو وہیں چکنہ چور کر دیا۔ یہ غدار سارجنٹ کو گولی مار کر اسپیشل فورس کے ہیڈ کواٹرز پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔
رات 11 بجے کے قریب ان ظالم فوجیوں نے سینکلوئے میں مقیم نہتے معصوم شہریوں پر گولیاں برسانی شروع کردی ۔ اور اسی دوران ان ظالم فوجیوں نے استنبول میٹروپولیشن میونسپلٹی کے سامنے جمع ہونے والے ہجوم پر گولیوں کی بھجار شروع کر دی۔
رات 11:03 پر ترکیہ کے وزیر اعظم یلدریم نے فون کے ذریعے این ٹی وی چینل سے بات چیت کی اور اپنی عوام کو حالات سے روشناس کروایا۔ انہوں نے اپنی عوام کو سچائی کی کڑو ی تصویر دکھائی جس نے سب کو ایک زور دار دہچکہ دیا کیونکہ اپنے ملک کی حفاظت کرنے والے فوجی ہی آپکے خلاف آپکو نقصان پہنچانے کے لیے کھڑے ہو جایئں تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔
رات 11:24 پر بغاوت کرنے والے غدار فوجیوں نے انقرہ میں موجود اسپیشل آپریشن ٹرینینگ سنٹر پر دھماکہ کر دیا۔
رات 11:45 کو ان باغیوں نے اتاترک ائیر پورٹ پر فضائی آمدو رفت کو بھی روک دیا۔ جنرل سٹاف پر اندھا دھند بارش شروع کر دی اور ہیلی کاپٹر سے ائیر پورٹ کے باہر کھڑے نہتے شہریوں پر گولیوں کی بارش کر دی گی جس نے وہاں موجود بچے ، بوڑھے یا جوان کسی کا پاس نہیں رکھا ۔
11:50 پر ترک عوام نے عزم و ہمت کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ کیا ۔ انہوں نے اپنے ملک کو ان باغیوں سے بچا نا تھا ۔ وہ اپنے خالی ہاتھوں ،اور جذبے سے بھر پور دلوں کو لیے سڑکوں پر نکل آئے۔اصلحوں سے بھر پور فوجیوں کے سامنے نہتے کھڑے انکو اس بات کا احساس دلانے لگے کہ آخر وہ کس گناہ کے پیکر قرار پا رہے ہیں۔اپنے ہی ملک کو اپنے ہی ہاتھوں تباہی کے دہانے کی طرف لیے جا رہے ہیں مگر شاید تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور انکی آنکھوں پر بغاوت کی پٹی بہت مضبوطی سے بند چکی تھی۔
رات 12:09 پر ایک ہیلی کاپٹر نے انقرہ میں موجود ایم آئی ٹی آفس پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ ایم آئی ٹی نے بھی اسکا بھر پور جواب دیا اور یہ جنگ تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ جاری رہی۔
رات 12:13 کے قریب ٹی آر ٹی کی نیوز رپورٹر کو باغیوں نے یرغما ل بنا لیا اور اسے وہ بیان دینے کے لیے مجبور کیا جو وہ اپنے ہوش و حواس میں کبھی بھی دینا نہ چاہے گی۔اسے بغاوت اور باغیوں کی جیت کا نیشنل ٹی وی پر اعلان کرنے پر مجبور کیا گیا اور اسے اپنی جان بچانے کے لیے انکی ہر بات پر خاموشی سے سر ہلانا پڑا۔
رات 12:37 پر سی این این ترک انقرہ کی رپورٹر کی مدد سے صدر رجب طیب ایرووان نے مرمریس سے اپنی قوم سے خطاب کیا اور انہیں تسلی دی کہ وہ اس مشکل وقت میں سے با آسانی نکل سکتے ہیں اور ان سے سڑکوں پر آنے کی درخواست کی۔
رات 12:40 پر مساجد میں بلند آوازوں کے ساتھ نماز جنازہ کی تلاوت شروع کر دی گئی اور شہریوں کو باغیوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کی تائید کی گئی۔دوسرے طرف اس عظیم ملک کے ایک بہادر صدر رجب طیب ایردوان مرمریس سے استنبول کی طرف روانہ ہوئے تاکہ ان مشکل حالات میں اپنی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو سکیں۔
رات 12:50 کا وقت تھا اور عزم و ہمت کی پیکر ترک قوم اپنے رہنما صدر رجب طیب ایردوان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی اور شہریوں نے کمسکلی میں موجود صدارتی رہائش گاہ کے ارد گرد اکھٹا ہونا شروع کر دیا۔اسی دوران اناطولین نیوز ایجنسی نے اعلان کیا کہ جنرل سٹاف کے چیف حلوسی آکار کو یرغمال بنا لیا گیا ہے اور ساتھ ہی فضائیہ کے کمانڈر ابیدین اونال کو باغیوں نے حراست میں لے لیا ہے۔
رات 12:57 پر با غیوں نے اپنا نایاک اور گندا قدم اْٹھایا اور تر ک سیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کردی اور اسی کوشش میں ترک سیٹ کے 2سیکورٹی اہلکار بھی شہید ہوگئے۔ جب باغی ترک سیٹ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے عمارت کو دھماکے سے اْڑا دیا۔
رات 1:00 بجے بغاوت کرنے والے گروہ نے اس ہوٹل پر حملہ کر دیا جہاں ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان رکے ہوئے تھے۔ لیکن دوسری طرف بغاوت میں شامل ہونے والے جنریلوں نے ٹی وی چینلز سے بات شروع کردی اور انہیں حالات سے روشناس کروانا شروع کیا۔
رات 1:01 باغیوں کے استعمال میں ہیلی کاپٹر نے انقرہ پولیس ہیڈ کوارٹر پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
رات 1:08 پر آرمی کمانڈر امیت وندار جوکہ اس جنگ میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے تھے اپنے ساتھیوں کو لیے دوسرے اسٹیشن کو بچانے کی کوشش میں لگ گئے۔
رات کے1:39 کے وقت پارلیمنٹ کے اسپیکر اسماعل کہرامان کے ساتھ اے کے ای ، سی ایچ پی اور ایم ایچ پی کے وزیروں نے پارلیمنٹ میں ا کھٹا ہونا شروع کر دیا۔
رات 1:40 پر بغاوات کرنے والوں نے بوگازچی پل پر انہیں روکنے والی عوام کو گولیوں سے چھنی کر دیا، ٹینکوں نے گولہ بارودی اور اور کاروں کو اپنے نیچے روندھنے میں کوئی قصر نہ چھوڑی۔
رات 1:49 کے دوران اسپیشل فورس کے کمانڈر سیکائی اسکالی نے کہا کہ یہ باغی ہر گز نہیں جیت سکتے، ہمارا واسطہ اس وقت دھوکے بازوں سے پڑھاہے ، حالات آہستہ آہستہ ہمارے قابو میں آرہے ہیں، ہمارے کچھ لوگ شہید ہوچکے ہیں اور کئی اس وقت زخمی ہیں مگر پھر بھی آج ہم جیت کو اپنے نام کرکے رہیں گے۔
رات 1:50 پر کچھ فوجیوں نے یہ جاننے کے بعد کہ یہ کوئی فوجی مشق نہیں بلکہ اپنی عوام اور اپنے ملک کو تباہ کرنے کی سازش ہے انہوں نے اپنے اصلحے چھوڑنے شروع کر دیے اور عوام کے ساتھ ہو لیے۔
رات 2:20 پر بغاوت کرنے والوں نے گولباسی میں موجود سپیشل فورسز کے ہیڈ کواٹرز پر ہوائی حملے شروع کر دیے جسکے نتیجے میں 50 پولیس آفیسر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
رات 2:30 پر باغیوں کے ہاتھوں پر یر غمال بننے والے ٹی آر ٹی کے رپورٹر کو شہریوں نے آزاد کر والیا اور اگلے ہی لمحے ٹی آر ٹی نے اپنے نارمل براڈ کاسٹ کا آغاز کر دیا۔ باغیوں نے اپنی ہار کو سامنے دیکھتے ہوئے ایم آئی ٹی اور صدارتی کومپلیکس میں گھسنے کی کوشش کی۔
رات 2:42 باغیوں نے پارلیمنٹ پر گولہ بارود برسانے شروع کردیے، پارلیمنت کے عہدیداروں کو ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں چھپنا پڑا جسے یکے بعدیگرے رات کو 7دفعہ دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔
رات 3:00 پر جب کاذان کے شہریوں کو یہ معلوم ہوا کہ انقرہ پر بمب گرانے والے جہازوں کو اکینسی بیس سے کنٹرول کیا جا رہا ہے تو انہوں نے وہاں دھابہ بول دیا۔شہریوں کو اپنی طرف آتے دیکھ باغیوں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔
رات 3:15 پر جنرل سٹاف ہیڈ کوارٹرز میں ایک بار پھر جنگ کی آوازیں سنی جانے لگیں۔
رات 3:20 پر صدر رجب طیب ایردوان کا جہاز اتاترک ائیر پورٹ پر پہنچ گیا اور انہوں نے اپنی بہادر قوم سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ یہ دھوکے بازوں کی چال ہے اور انہیں ایک ایک بات کا پورا پورا جواب دینا ہوگا اس بات کا میں آپکو یقین دلاتا ہوں۔
صبح 6:00 کا سورج ایک نئی امید کے ساتھ ابھرا جس نے عروج پر آتے ساتھ ہی کالے اندھیروں کو چیر دیا ۔ بوگازچی پل پر موجود فوجیوں نے ہتھیاڑ ڈال دیے جو کہ استنبول میں فوجیوں کے قبضے کی سب سے پہلی جگہ تھی اورشہریوں نے بکتر بند گاڑیوں پر چڑھ کے اپنی جیت کا جشن منانا شروع کر دیا۔
صبح 6:43 پر بیستیب میں موجود صدارتی کومپلیکس پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا، باغیوں کو روکنے کے لیے جو شہری وہاں پہنچے وہ دوسرے حملے کی زد میں آگئے۔
صبح 6:52 پر جنرل امیت دند سر جنہوں نے بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا انہیں چیف آف جنرل مقرر کر دیا گیا۔
صبح 7:00 بجے صدارتی کمپلیکس پر جنڈر ماری جنرل کمانڈجنگی جہاز نے بمب سے حملہ کیا۔
صبح 7:50 داخلی امور کے وزیر افکان الا نے 29 کرنل اور 5 جنرل کو انکے عہدے سے دستبردار کر دیا جو اس حملے میں شامل تھے۔
صبح 8:30 انقرہ میں موجود اکینسی میں جیٹ بیس کمانڈ کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا جسکے بعد 4 سٹار جنرل ہلوسی آکار کو باغیوں نے رہا کر دیا۔اسی دوران باغیوں کے حوصلے ٹوٹنے لگے اور انہوں نے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے جن فوجیوں نے ہتھیاڑ نہیں ڈالے انہیں آپریشن کے ساتھ ہی ختم کرنے کا فیسلہ کیا گیا اور آخر کار ترکیہ کی عظیم قوم اپنی فتح کا جشن منانے لگی۔
ترک قوم نے یہ ثابت کیا کہ زندہ دل قومیں کسی بھی حالت میں اپنا سر کسی ظالم کے سامنے جھکنے نہیں دیتی اور وہ ایک نہ ایک دن جیت کو اپنا مقدر بنا ہی لیتی ہیں۔